ہے تو عتاب اور ملامت کی کوئی وجہ نہیں، یہ خود بخود کافور ہو جاتے ہیں۔[1] البتہ ڈاکٹر محمد حسین ہیکل نے خالد رضی اللہ عنہ کے دفاع میں جو منہج اختیار کیا ہے وہ کسی طرح قابل قبول نہیں کیونکہ ہمارے لیے یہ جائز نہیں کہ خالد رضی اللہ عنہ کی غلطیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے اسلام کا جنازہ نکال دیں۔ خالد رضی اللہ عنہ وغیرہ شریعت کے تابع ہیں جو ہمیشہ بلند رہے گی، اس سے کوئی بالاتر نہیں ہو سکتا۔ اشخاص کی براء ت اور صفائی پیش کرنے کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ منہج اور دستور ہی کو مسخ کر دیا جائے چنانچہ ہیکل صاحب نے یہ گل فشانی کی ہے: ’’عرب کی عادت کے خلاف کسی عورت سے شادی کرنا بلکہ استبرائے رحم سے قبل دخول کرنے میں کوئی حرج نہیں جبکہ یہ فاتح اور غازی کی طرف سے ہو۔ اس کو یہ حق پہنچتا ہے کہ اس کے لیے قیدی خواتین ملک یمین (لونڈیاں) بنیں۔ شریعت کی تطبیق و نفاذ میں تشدد وجمود مناسب نہیں کہ اس کا نفاذ خالد جیسی عظیم اور نابغہ روزگار شخصیتوں پر کیا جائے اور خاص کر جب اس سے حکومت کو نقصان اور خطرہ لاحق ہو سکتا ہو۔‘‘[2] شیخ احمد شاکر رحمہ اللہ نے ہیکل کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: مجھے اس بات کا شدید خوف ہے کہ کہیں مؤلف نپولین وغیرہ بادشاہان یورپ کی کارستانیوں اور ان کے دفاع میں فرنگی مؤلفین کی تحریروں سے متاثر تو نہیں؟ کیونکہ انہوں نے اپنے زعماء وقائدین کے معاصی اور جرائم پر پردہ ڈالنے اور ان کو ہلکا ثابت کرنے کے لیے ان کی عظمت اور ملک و قوم کے ساتھ احسانات و فتوحات کا سہارا لیا ہے۔ اور اس تاثر کے نتیجہ میں مؤلف نے یہ تصور قائم کر لیا کہ سابقین اوّلین مسلمان بھی انہی لوگوں کی طرح تھے اور یہ کہہ دیا کہ شریعت کے نفاذ و تطبیق میں جمود وتشدد خالد جیسی عظیم اور نابغہ روزگار شخصیتوں پر نہیں ہونا چاہیے۔ یہ فکر دین واخلاق کو تباہ کرنے والی ہے۔[3] جنگی قائدین کی تائید: لشکر خالد کے بعض افراد نے یہ شہادت دی کہ مالک بن نویرہ کے لوگوں نے جب مسلمانوں کی اذان سنی تو اذان کا اہتمام کیا اور اس طرح انہوں نے اپنا خون محفوظ کر لیا لہٰذا ان کو قتل کرنا جائز نہیں۔ انہی لوگوں میں سے ابو قتادہ رضی اللہ عنہ بھی تھے، آپ نے اس معاملہ کو بڑا تصور کیا اور جب دیکھا کہ خالد رضی اللہ عنہ نے مالک بن نویرہ کی بیوی سے شادی بھی کر لی تو ان کے اس تصور میں مزید اضافہ ہو گیا، وہ خالد رضی اللہ عنہ کا ساتھ چھوڑ کر ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس ان کی شکایت لے کر پہنچ گئے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے قتادہ رضی اللہ عنہ کے اس عمل کو غلط قرار دیا کیونکہ انہوں نے خالد رضی اللہ عنہ جو قائد و سربراہ تھے ان سے مفارقت اختیار کی تھی، جس کی اجازت کسی کو نہیں دی جا سکتی کیونکہ یہ عمل دشمن کے مقابلہ میں شکست وناکامی کا سبب بن سکتا تھا۔ آپ نے ابوقتادہ رضی اللہ عنہ پر سختی کی اور انہیں فوراً خالد رضی اللہ عنہ کے پاس واپس بھیج دیا اور اس سے کم پر راضی نہ ہوئے کہ وہ واپس جا کر خالد رضی اللہ عنہ کے پرچم تلے اسلامی لشکر میں شامل ہو |
Book Name | سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | شمیم احمد خلییل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 512 |
Introduction |