Maktaba Wahhabi

207 - 512
دیتا ہے اور جس قوم میں بدکاری پھیل جاتی ہے اللہ اس کو مصیبت میں مبتلا کر دیتا ہے اگر میں اللہ ورسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کروں تو میری اطاعت کرو اور اگر میں اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کروں تو تم پر میری اطاعت لازم نہیں، اللہ تم سب پر رحم فرمائے۔ نماز کے لیے کھڑے ہو جاؤ۔‘‘[1] اس دن عمر رضی اللہ عنہ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا: منبر پر تشریف لائیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ برابر اصرار کرتے رہے یہاں تک کہ آپ منبر پر تشریف لائے اور لوگوں نے آپ سے بیعت کی۔[2] یہ خطبہ اپنے اختصار وایجاز کے باوجود اہم ترین اسلامی خطبوں میں سے ہے۔ اس کے اندر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے حاکم ورعایا کے مابین تعامل کے سلسلہ میں عدل ورحمت کے قواعد مقرر کیے۔ اس بات پر ترکیز کی کہ اولی الامر کی اطاعت اللہ و رسول کی اطاعت پر مترتب ہوتی ہے۔ جہاد فی سبیل اللہ کی طرف توجہ دلائی کیونکہ امت کے عزوشان کے لیے یہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اور فواحش سے اجتناب پر زور دیا کیونکہ معاشرہ کو گراوٹ وفساد سے بچانے کے لیے یہ انتہائی ضروری ہے۔[3] اس خطبہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد پیش آنے والے واقعات کی روشنی میں بحث وتحقیق کرنے والے خلافت راشدہ کے آغاز میں نظام حکومت کے بعض خصائص کا استنباط کر سکتے ہیں، جن میں اہم ترین یہ ہیں: ۱۔ بیعت کا مفہوم: علماء نے بیعت کی مختلف تعریفیں کی ہیں۔ علامہ ابن خلدون بیعت کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’اولی الامر کی اطاعت کا عہدوپیمان۔‘‘[4] اور بعض لوگوں نے اس کی تعریف یوں کی ہے: ’’اسلام پر قائم رہنے کا معاہدہ کرنا۔‘‘[5] اور ان الفاظ میں بھی اس کی تعریف کی گئی ہے: ’’کتاب وسنت نے جس کو جاری کیا ہے اس کو جاری رکھنے اور جس کو قائم کیا ہے اس کو قائم رکھنے کا عہدوپیمان کرنا۔‘‘[6] مسلمان جب امیر سے بیعت کرتے تو عہدوپیمان کی تاکید کے لیے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھ دیتے، جس کی بائع ومشتری کے فعل سے مشابہت ہوتی تھی اس کی وجہ سے اس فعل کو بیعت کہا گیا ہے۔[7] بیعت صدیقی سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ اسلامی حکومت میں اہل حل وعقد کی بیعت کے ذریعہ سے حاکم کو حکومت ملنے اور شروط معتبرہ کے پائے جانے کے بعد امت نے اس سے بیعت کرلی ہے تو تمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ اس سے بیعت کریں اور اس پر متحد ہو جائیں اور دشمنوں کے خلاف جب وہ اٹھے تو اس کی نصرت
Flag Counter