Maktaba Wahhabi

208 - 512
وتائید کریں تاکہ امت کی وحدت اور داخل وخارج میں دشمنوں کے سامنے امت کی قوت برقرار رہے۔[1] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ((من مات ولیس فی عنقہ بیعۃ مات میتۃ جاہلیۃ۔))[2] ’’جو اس حال میں مرے کہ اس کی گردن میں حاکم کی بیعت نہ ہو تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہے۔‘‘ اس حدیث کے اندر بیعت کرنے کے وجوب پر ابھارا گیا ہے اور اس کے ترک پر وعید سنائی گئی ہے اور جو حاکم وقت کے ہاتھوں پر بیعت نہ کرے اس کی زندگی گمراہی میں گذرتی ہے اور اس کی موت گمراہی کی موت ہوتی ہے۔[3] اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((ومن بایع اماما فاعطاہ صفقۃ یدہ وثمرۃ قلبہ فَلْیُطِعْہ ما استطاع فان جاء آخر ینازعہ فاضربوا عنق الآخر۔))[4] ’’جس نے امام وقت سے بیعت کر لی اور اپنا ہاتھ اوردل اس کو دے دئیے وہ حتی الوسع اس کی اطاعت کرے اور اگر کوئی دوسرا اس سے حکومت چھیننا چاہے تو اس دوسرے کی گردن مار دے۔‘‘ یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امام وقت کے خلاف خروج کرنے والے کے قتل کا حکم فرمایا ہے جو اس فعل کی حرمت پر دلالت کرتا ہے کیونکہ پہلی بیعت کے مقابلہ میں جو مسلمانوں پر واجب ہے وہ دوسری بیعت کا مطالبہ کر رہا ہے۔[5] دارالسلطنت میں بیعت خلیفہ لے گا اور دیگر صوبوں اور مقامات میں بیعت یا براہ راست امام لے گا یا پھر اس کے نائبین لیں گے جیسا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت میں ہوا، اہل مکہ اور طائف سے خلیفہ کے نائبین نے بیعت لی۔ جن کی بیعت واجب ہے وہ اصحاب حل وعقد، علماء اور قائدین امت، اہل شوریٰ اور مختلف علاقوں کے امراء ہیں اور باقی عام لوگوں کے لیے ان حضرات کی بیعت میں داخل ہونا کافی ہے لیکن اہل حل وعقد کی بیعت کے بعد عام لوگ بھی بیعت کر سکتے ہیں۔[6] اور کچھ علماء کا یہ خیال ہے کہ عام لوگوں کی بیعت ضروری ہے کیونکہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے زمام حکومت اس وقت تک نہیں سنبھالا، جب تک عام لوگوں سے بیعت نہ لے لی۔[7] یہ بیعت اس خاص معنی میں جو ابوبکر رضی اللہ عنہ سے امت نے کی اسلامی حکومت میں امام اعظم کا حق ہے کسی دوسرے کو یہ حق نہیں، چاہے اسلامی حکومت قائم ہو یا نہ ہو۔ کیونکہ اس بیعت پر بہت سے احکام مترتب ہوتے ہیں۔[8]
Flag Counter