ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ’’ابوفصیل‘‘ کہنے والے کے سلسلہ میں حسان رضی اللہ عنہ کا شعر: ما البَکْرُ الا کالفصیل وقد تری أنَّ الفَصیْل علیہ لیس بعارِ ’’بکر اور فصیل ایک ہی چیز ہے اور ابو فصیل ہونا آپ کے لیے کوئی عار کی چیز نہیں ہے۔‘‘ إِنَّا وما حجَّ الحَجِیْجَ لِبَیْتِہٖ رکبان مکَّۃ معشر الانصار ’’میں اور جتنے لوگ خانہ کعبہ کا حج کرنے والے ہیں، مکہ کے مہاجرین اور انصار۔‘‘ نَفْری جَمَاجِمَکُم بکل مُہَنَّدٍ ضَرْبَ القُدار مبادیٔ الأیسار ’’تمہارے سر تلوار سے اڑا دیں گے جس طرح قصاب اونٹوں کے جوڑوں کو کاٹتا ہے۔‘‘ حتّٰی تُکَنُّوہ بفحل ہنیدۃٍ یحمی الطَّروقۃ بازلٍ ہدَّارِ[1] ’’یہاں تک کہ تم ان کو سو اونٹنیوں کے سانڈ کے ساتھ کنیت دو گے جو جفتی کے قابل اونٹنیوں کی حفاظت کرتا ہے، تجربہ کار بہادر ہے۔‘‘ سجاح، بنو تمیم اور مالک بن نویرہ الیربوعی کا قتل: ارتداد کے دور میں بنو تمیم مختلف الرائے تھے۔ ان میں کچھ ارتداد کا شکار ہوئے اور اپنی زکوٰۃ روک لی، اور کچھ نے اپنی زکوٰۃ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو روانہ کی، اور کچھ نے توقف کیا تاکہ اس سلسلہ میں غور و فکر کریں۔ اسی دوران میں ان کے یہاں سجاح بنت حارث بن سوید بن عقفان پہنچی، اس کا تعلق بنو تغلب سے تھا اور یہ نصرانی تھی۔ اس نے نبوت کا دعویٰ کر رکھا تھا۔ اس کے ساتھ اس کی قوم اور معاونین کا لشکر تھا۔ انہوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے لڑنے کا عزم کر رکھا تھا۔ جب وہ بنو تمیم کے علاقہ سے گذری اور ان کو اپنی طرف دعوت دی، تو بنو تمیم کے اکثر لوگوں نے اس کی بات مان لی، اس کی دعوت قبول کرنے والوں میں مالک بن نویرہ تمیمی، عطارد بن حاجب اور بنو تمیم کے امراء کی ایک جماعت تھی اور ان میں سے دوسرے لوگ اس سے دور رہے۔ پھر انہوں نے اتفاق کر لیا کہ آپس میں جنگ نہیں کریں گے لیکن مالک بن نویرہ نے جب اس (سجاح) سے مصالحت کی تو اس کو اس کے عزم سے پھیر دیا اور اسے بنو یربوع کے خلاف بھڑکایا پھر لوگوں سے قتال پر وہ سب متفق ہو گئے۔ سوال پیدا ہوا کہ ہم قتال کس سے شروع کریں؟ سجاح نے مسجع عبارت میں کہا: |
Book Name | سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | شمیم احمد خلییل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 512 |
Introduction |