Maktaba Wahhabi

328 - 512
فہل یقبل الصدیق انی مراجعٌ ومُعطٍ بما احدثتُ من حَدَثٍ یدی ’’تو کیا صدیق رضی اللہ عنہ اس بات کو قبول فرمائیں گے کہ میں اپنے کیے سے رجوع کرتا ہوں اور اپنا ہاتھ بیعت کے لیے بڑھاتا ہوں۔‘‘ وأنِّی من بعد الضلالۃ شاہدٌ شہادۃ حقٍّ لَسْتُ فیہا بِمُلحِدٍ ’’اور میں ضلالت کے بعد کلمہ حق کی شہادت دیتا ہوں اور اس شہادت میں ملحد نہیں ہوں۔‘‘ بأنَّ الہ الناس ربی وأنَّنی ذلیل وان الدین دین محمدٍ[1] ’’میں اس بات کی شہادت دیتا ہوں کہ لوگوں کا معبود برحق ہی میرا رب ہے اور میں ذلیل ہوں اور صحیح دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی دین ہے۔‘‘ فجاء ۃ کا قصہ: اس کا نام اِیاس بن عبداللہ بن عبدیالیل بن عمیر بن خفاف تھا اور اس کا تعلق قبیلہ بنی سلیم سے تھا جیسا کہ ابن اسحق کا بیان ہے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس کو بقیع میں نذر آتش کر دیا تھا اور اس کا سبب یہ تھا کہ یہ شخص ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور بزعم خویش اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کیا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ سے مطالبہ کیا کہ اس کے ساتھ ایک لشکر تیار کر دیں تاکہ وہ مرتدین سے قتال کرے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس کے لیے لشکر تیار کر دیا۔ جب لشکر لے کر روانہ ہوا تو راستے میں جو بھی ملتا خواہ مسلم ہو یا مرتد، قتل کر دیتا اور اس کا مال ہڑپ لیتا، ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اس کی خبر ملی تو اس کے پیچھے دوسرا لشکر بھیجا کہ اس کو گرفتار کر کے لاؤ۔ جب وہ گرفتار کر کے لایا گیا تو آپ نے اسے بقیع میں بھیجا اور اس کے ہاتھ اور پیر باندھ کر نذر آتش کر دیا گیا۔[2] اس کو گرفتار کرنے والے طریفہ بن حاجز تھے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بنو سلیم کے مسلمانوں نے مفسدین اور مرتدین سے قتال میں اچھا کردار ادا کیا ہے۔[3] ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس کو جو نذر آتش کرنے کی سزا دی وہ اس وجہ سے کہ اس نے غداری کی تھی یا اس وجہ سے کہ اس نے مسلمانوں کو نذر آتش کیا تھا۔[4]
Flag Counter