Maktaba Wahhabi

256 - 512
’’موت کے حریص بنو زندگی ملے گی‘‘ یا یہ قول: ’’سب سے بڑی سچائی امانت ہے اور سب سے بڑا جھوٹ خیانت ہے۔ صبر نصف ایمان ہے، یقین پورا ایمان ہے۔‘‘ یہ تمام کلمات جس طرح بلاغت اور حسن تعبیر سے پر ہیں اسی طرح اعتدال و میانہ روی سے لبریز ہیں اور اس سرچشمہ کا پتا دیتے ہیں جہاں سے یہ نکلے ہیں۔ یہ انسان کو موجودہ ثقافت کے نشان سے بے نیاز کر دیتے ہیں جس کو جمع کرنے میں لوگ لگے ہوئے ہیں، اس لیے کہ حقیقی فہم ہی ثقافت کا مقصود و مغز ہوا کرتا ہے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو جس طرح کلام میں بلاغت پر عبور تھا اسی طرح خطابت میں بھی لیاقت حاصل تھی۔[1] لشکر اسامہ کی روانگی سے متعلق ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے درمیان ہونے والی گفتگو: بعض صحابہ نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے سامنے لشکر اسامہ کے سلسلہ میں اپنی رائے پیش کرتے ہوئے کہا: آپ کو معلوم ہے کہ اکثر مسلمان اور عرب آپ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، لہٰذا یہ مناسب نہیں کہ آپ مسلمانوں کی جماعت کو اپنے سے جدا کریں۔[2] اور اسامہ رضی اللہ عنہ نے جرف میں اپنی لشکر گاہ میں سے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس لوگوں کے ساتھ مدینہ لوٹ آنے کی اجازت طلب کرنے کے لیے بھیجا اور کہا: میرے ساتھ مسلم قائدین اور ان کی اکثریت موجود ہے اور مجھے خلیفہ رسول، حرم رسول اور مسلمانوں کے سلسلہ میں مشرکین سے خطرہ لاحق ہے۔[3] لیکن ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس کی مخالفت کی اور لشکر اسامہ کو شام کی مہم پر روانہ کرنے کے سلسلہ میں اپنے مؤقف پر قائم رہے۔ احوال وظروف اور نتائج کیسے بھی ہوں، اسامہ رضی اللہ عنہ اور دیگر قائدین جنگ ، خلیفہ کی اپنی رائے پر اصرار سے مطمئن نہ ہوئے اور متعدد طریقوں سے اس بات کی کوشش کی کہ خلیفہ کو اپنی رائے پر مطمئن کر سکیں۔ جب خلیفہ سے اس طرح کے مطالبات بڑھ گئے تو آپ نے اس موضوع پر بحث وگفتگو کے لیے مہاجرین وانصار کی عام مجلس بلائی اور اس اجتماع میں مختلف پہلوؤں سے اس موضوع پر طویل گفتگو ہوئی۔ لشکر اسامہ کی روانگی کے سب سے بڑے مخالف عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ تھے۔ کیونکہ وہ ایسی صورت میں خلیفہ، ازواج مطہرات، مدینہ اور اس کے باشندگان کے لیے سخت خطرہ محسوس کر رہے تھے کہ کہیں مشرکین اور مرتدین چڑھ نہ دوڑیں اور کہیں ان پر قابض نہ ہو جائیں۔ اور جب عمائدین صحابہ نے اس سلسلہ میں خلیفہ پر زور دیا اور ان عظیم خطرات کا خوف دلایا جو لشکر اسامہ کی روانگی سے پیدا ہو سکتے تھے تو آپ نے لوگوں کے مشورے سنے، انہیں اپنی بات مکمل کرنے کا موقع دیا، ان سے وضاحت طلب کی۔[4] پھر آخر میں آپ نے مجلس برخاست کرنے کا حکم دے دیا۔[5] پھر مسجد میں دوسرا عام اجتماع منعقد کیا اور اس میں صحابہ سے مطالبہ کیا کہ وہ اس مہم کے عدم نفاذ کو
Flag Counter