Maktaba Wahhabi

257 - 512
بھول جائیں جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود تیار کیا ہو، اور انہیں آپ نے خبر دی کہ وہ اس منصوبہ کو عنقریب نافذ کر کے رہیں گے۔اگرچہ اس تنفیذ کے نتیجہ میں مرتدین مدینہ پر قابض ہو جائیں۔ آپ نے صحابہ کو خطاب[1] کرتے ہوئے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں ابوبکر کی جان ہے اگر مجھے یہ یقین ہو کہ درندے مجھے نوچ کر کھائیں گے تب بھی میں لشکر اسامہ کو بھیج کر رہوں گا جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے۔ اگر بستی میں میرے سوا کوئی بھی باقی نہ رہے تب بھی میں اس کو ضرور نافذ کروں گا۔[2] جی ہاں! لشکر اسامہ کو اس کی مہم پر بھیجنے کے سلسلہ میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کا عزم بالکل صحیح تھا اگرچہ یہ تمام مسلمانوں کی رائے کے خلاف تھا کیونکہ لشکر اسامہ کو بھیجنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم موجود تھا اور بعد کے حالات وواقعات نے یہ ثابت کر دیا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی رائے درست تھی اور آپ کی قرارداد صحیح تھی، جس کی تنفیذ کا آپ نے عزم کر رکھا تھا۔[3] انصار کا مطالبہ تھا کہ اسامہ رضی اللہ عنہ سے زیادہ عمر والے شخص کو امیر الجیش بنایا جائے، انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ کو اس سلسلہ میں ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بات کرنے کے لیے روانہ کیا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے آپ سے عرض کیا کہ انصار اسامہ سے زیادہ عمر والے شخص کو امیر الجیش مقرر کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ آپ بیٹھے ہوئے تھے اٹھ کھڑے ہوئے اور عمر رضی اللہ عنہ کی داڑھی پکڑ لی اور فرمایا: خطاب کے بیٹے! اسامہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امیر مقرر فرمایا ہے اور تم مجھے حکم دے رہے ہو کہ میں اسے معزول کر دوں۔ [4] عمر رضی اللہ عنہ وہاں سے نکل کر لوگوں کے پاس آئے، لوگوں نے دریافت کیا: کیا ہوا؟ فرمایا: چلے جاؤ، تمہاری مائیں تمہیں گم پائیں، تمہارے سلسلہ میں خلیفہ رسول سے کچھ نہیں ملا۔[5] پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نکلے اور لشکر کے پاس پہنچے، ان کو روانہ کیا اور الوداع کرنے کے لیے ان کے ساتھ چلے۔ اسامہ رضی اللہ عنہ سوار تھے اور آپ پیدل چل رہے تھے اور عبدالرحمن بن عوف آپ کی سواری لے کر چل رہے تھے۔ اسامہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: خلیفہ رسول! یا تو آپ سوار ہو جائیں ورنہ میں اتر جاتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: واللہ نہ آپ سواری سے اتریں گے اور نہ میں سوار ہوں گا۔ اس میں کوئی حرج نہیں کہ میں اپنے قدم اللہ کی راہ میں گرد آلود کروں۔ [6] پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اسامہ رضی اللہ عنہ سے کہا: اگر آپ مناسب سمجھیں تو عمر کو میرے تعاون کے لیے چھوڑ جائیں۔ اسامہ رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ کو اجازت دے دی۔[7] پھر آپ فوج کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: لوگو! ٹھہرو، میں
Flag Counter