Maktaba Wahhabi

251 - 512
(۱) لشکر اسامہ لشکر اسامہ کو روانہ کرنا: عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں جزیرئہ عرب کے پڑوس میں روم و فارس کی دو عظیم سلطنتیں پائی جاتی تھیں۔ رومی، جزیرئہ عرب کے شمال میں ایک بڑے حصہ پر قابض تھے اور ان علاقوں کے امراء رومی سلطنت کی طرف سے مقرر کیے جاتے تھے اور اس کے اوامر کے پابند ہوتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان علاقوں میں مبلغین اور فوجی دستوں کو روانہ فرمایا اور دحیہ بن خلیفہ کلبی رضی اللہ عنہ کے ذریعہ سے شاہ روم ہرقل کو خط بھی بھیجا جس میں اس کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔[1] لیکن اس نے سرکشی کی اور گناہ کا غرور اس پر سوار ہوا۔ عربوں کے دلوں سے روم کی ہیبت کو ختم کرنے کے سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منصوبہ بالکل واضح تھا چنانچہ اسلامی افواج ان علاقوں کو فتح کرنے کے لیے نکلنا شروع ہوئیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ۷ہجری میں ایک فوج بھیجی، جس نے معرکہ موتہ میں عرب کے نصرانیوں اور رومیوں سے ٹکر لی، اور اس معرکہ میں اسلامی فوج کے قائدین یکے بعد دیگرے جام شہادت نوش کرتے رہے۔ زید بن حارثہ، پھر جعفر بن ابی طالب، پھر عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہم ۔ آخر میں سیف اللہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اسلامی فوج کی قیادت سنبھالی اور انہیں بچا کر مدینہ لے آئے۔[2] اور ۹ ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بڑی فوج لے کر شام کا رخ کیا اور مقام تبوک تک پہنچے،[3] اسلامی فوج کی رومیوں اور عرب قبائل کے ساتھ مڈبھیڑ نہیں ہوئی اور ان علاقوں کے امراء وحکام نے جزیہ کی ادائیگی پر مصالحت کو ترجیح دی اور اسلامی فوج تبوک میں بیس (۲۰) دن قیام کر کے مدینہ واپس ہو گئی[4] اور ۱۱ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلقاء (اردن) وفلسطین میں رومیوں پر چڑھائی کرنے کے لیے لوگوں کو تیار کیا۔ ان میں کبار مہاجرین وانصار صحابہ شریک ہوئے اور ان پر اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کو امیر مقرر فرمایا۔[5] حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: لشکر اسامہ رضی اللہ عنہ کی تیاری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے دو روز قبل بروز ہفتہ مکمل ہوئی اور اس کا آغاز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری سے قبل ہو چکا تھا۔ آپ نے ماہ صفر کے اواخر میں جنگ کی
Flag Counter