علامہ ابوحیان مزید لکھتے ہیں:
’’اس کے معنٰی کے بارے میں امام قتادہ نے بیان کیا:
’’اَلْقَآئِمُ بِتَدْبِیْرِ خَلْقِہِ۔‘‘[1]
[اپنی مخلوق (کے معاملات) کی تدبیر کرنے والے ہیں۔]
۳: امام ابن قیم نے اپنے [القصیدۃ النونیۃ] میں قلم بند کیا ہے:
’’ہٰذَا ، وَمِنْ أَوْصَافِہٖ الْقَیُّوْمُ وَالْ
قَیُّوْمُ فِيْ أَوْصَافِہٖ أَمْرَانِ
إِحْدٰہُمَا الْقَیُّوْمُ قَامَ بِنَفْسِہٖ
وَالْکَوْنُ قَامَ بِہٖ ہُمَا الْأَمْرَانِ
فَالْأَوَّلُ اسْتِغْنَآؤُہٗ عَنْ غَیْرِہٖ
وَالْفَقْرُ مِنْ کُلٍّ إِلَیْہِ الثَّانِيْ
وَالْوَصْفُ بِالْقَیُّوْمِ ذُوشَأْنٍ عَظِیْمٍ ھٰکَذَا
مَوْصُوْفُہٗٓ أَیْضًا عَظِیْمُ الشَّانِ۔‘‘[2]
[مزید برآں، ان کے اوصاف میں سے [اَلْقَیُّوْمُ] ہے، اور [اَلْقَیُّوْمُ] میں دو باتیں ہیں:
ان دو میں سے ایک یہ ، کہ وہ از خود قائم ہیں اور دو سری یہ کہ (پوری) کائنات کا قیام ان کے ساتھ ہے۔ وہ دو باتیں ہیں:
پہلی ، کہ وہ اپنے سوا ہر کسی سے مستغنی ہیں اور دوسری کہ تمام (مخلوق) ان
|