Maktaba Wahhabi

213 - 512
اسلام نے حکام پر لازم کیا ہے کہ وہ لوگوں کے درمیان عدل قائم کریں۔ زبان، قبائل اور معاشرتی احوال کی بنیاد پر امتیاز نہ برتا جائے۔ حاکم کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کے درمیان عدل وحق کے ساتھ فیصلہ کرے، اس کی پرو ا نہ کرے کہ محکوم دوست ہے یا دشمن، مالدار ہے یا فقیر، مزدور ہے یا تاجر۔[1] اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّـهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ ۖ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَىٰ أَلَّا تَعْدِلُوا ۚ اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ ۖ وَاتَّقُوا اللَّـهَ ۚ إِنَّ اللَّـهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ (المائدۃ: ۸) ’’اے ایمان والو! تم اللہ کی خاطر حق پر قائم ہو جاؤ، راستی اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بن جاؤ، کسی قوم کی عداوت تمہیں خلاف عدل پر آمادہ نہ کرے، عدل کیا کرو جو پرہیزگاری کے زیادہ قریب ہے اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو۔ یقین مانو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے باخبر ہے۔‘‘ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ عدل میں قدوہ تھے، دلوں کو ایسے اسیر کرتے کہ عقلیں دنگ رہ جاتیں۔ آپ کی نگاہ میں عدل، اسلام کی عملی دعوت تھی، اس کی وجہ سے لوگوں کے دل ایمان کے لیے کھلتے۔ لوگوں کے درمیان عطیات میں عدل کرتے۔ لوگوں سے مطالبہ کرتے کہ وہ اس عدل میں ان سے تعاون کریں۔ ایک دفعہ اپنے آپ کو بدلہ کے لیے پیش کیا جو عدل اور خوف الٰہی پر بین واضح ہے۔[2] چنانچہ عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ایک جمعہ کو اعلان کیا کہ کل ہم زکوٰۃ کے اونٹ تقسیم کریں گے، آپ لوگ آجائیں، لیکن بلا اجازت کوئی اندر داخل نہ ہو۔ ایک خاتون نے اپنے شوہر کو نکیل دی اور کہا: اس کو لے جاؤ، امید ہے اللہ ہمیں اونٹ عطا کر دے۔ یہ شخص پہنچا، دیکھا ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما اونٹوں کی باڑ میں داخل ہو رہے ہیں، یہ بھی پیچھے سے داخل ہو گیا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مڑ کر دیکھا، فرمایا:’’تم کیسے آگئے؟‘‘ پھر اس سے نکیل لے لی اور اس کو مارا پھر جب اونٹوں کی تقسیم سے فارغ ہوئے تو اس شخص کو بلایا اور اونٹ کی نکیل اس کے ہاتھ میں پکڑائی اور کہا:تم اپنا بدلہ لے لو۔‘‘ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: واللہ وہ بدلہ نہیں لے سکتا، آپ اس کو سنت نہ بنائیں۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: قیامت کے دن مجھے اللہ سے کون بچائے گا؟ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ اس کو خوش کر دیجیے۔
Flag Counter