Maktaba Wahhabi

214 - 512
ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے غلام کو حکم فرمایا: اس کو ایک اونٹنی کجاوہ کے ساتھ، ایک چادر اور پانچ دینار دے دو۔ یہ سب اس کو دے کر خوش کیا۔[1] اصول مساوات جسے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے امت سے اپنے خطاب میں ثابت کیا تھا یہ اسلام کے عام اصول ومبادی میں سے ہے جو اسلامی معاشرہ کی تشکیل و بناء میں ممد و معاون ہیں اور اس سلسلہ میں اسلام نے عصر حاضر کے دیگر قوانین وتشریعات سے سبقت کی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَىٰ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ۚ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّـهِ أَتْقَاكُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ (الحجرات: ۱۳) ’’اے لوگو! ہم نے تم سب کو ایک ہی مرد و عورت سے پیدا کیا ہے تمہارے کنبے اور قبیلے بنا دیے ہیں تاکہ تم آپس میں ایک دوسرے کو پہچانو اور اللہ کے نزدیک تم میں سے باعزت وہ ہے جو سب سے زیادہ ڈرنے والا ہو۔ یقین مانو کہ اللہ دانا اور باخبر ہے۔‘‘ اسلام کی نظر میں تمام لوگ برابر ہیں، حاکم ہوں یا محکوم، مرد ہوں یا عورت، عرب ہوں یا عجم، گورے ہوں یا کالے۔ اسلام نے جنس، رنگ، نسب اور طبقات کی بنیاد پر لوگوں کے درمیان امتیازات کو ختم کر دیا ہے۔ حاکم ہوں یا محکوم، اسلام کی نظر میں سب برابر ہیں۔ [2] ابوبکر رضی اللہ عنہ کا اس اصول پر کاربند ہونا اس کی واضح مثال ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں: میں تم پر حاکم بنایا گیا ہوں، لیکن تم میں سب سے بہتر نہیں ہوں۔ اگر اچھا کروں تو مجھ سے تعاون کرو اور اگر میں کجی اختیار کروں تو مجھے سیدھا کر دو، تمہارا ضعیف فرد بھی میرے نزدیک قوی ہے، جب تک کہ میں دوسروں سے اس کا حق اس کو نہ دلا دوں، اور تمہارا قوی شخص بھی میرے نزدیک ضعیف ہے یہاں تک کہ میں اس سے دوسروں کا حق نہ حاصل کر لوں۔[3] آپ بیت المال سے لوگوں پر خرچ کرتے تو اس میں جو کچھ ہوتا لوگوں کو برابر برابر دیتے۔ ابن سعد وغیرہ کی روایت ہے: مقام سنح میں آپ کا بیت المال معروف تھا، وہاں کوئی پہرے دار نہیں ہوتا تھا۔ آپ سے لوگوں نے عرض کیا: بیت المال پر پہرے دار مقرر کر لیں۔ آپ نے فرمایا: کوئی خوف نہیں۔
Flag Counter