Maktaba Wahhabi

112 - 512
میدان احد اور حمراء الاسد میں جنگ احد میں مسلمانوں کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، صحابہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے بچھڑ گئے اور میدان جنگ کے مختلف گوشوں میں بکھر گئے اور یہ خبر مشہور ہو گئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قتل کر دیے گئے۔ اس کا ردّعمل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر مختلف پڑا۔ میدان وسیع تھا۔ ہر ایک اپنے میں مشغول تھا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ سب سے پہلے صفوں کو چیرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ابوبکر، ابوعبیدہ بن الجراح، علی، طلحہ، زبیر، عمر بن خطاب، حارث بن صمہ، ابودجانہ، سعد بن ابی وقاص وغیرہم رضی اللہ عنہم جمع ہو گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ احد کی گھاٹی میں چلے گئے تاکہ اپنی مادی ومعنوی قوت کو دوبارہ بحال کر سکیں۔[1] صدیق اکبر رضی اللہ عنہ جب احد کا تذکرہ کرتے تو فرماتے: یہ جنگ کل کی کل طلحہ رضی اللہ عنہ کے لیے تھی۔ (یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تحفظ کا اصل کارنامہ انھی نے انجام دیا تھا) پھر بیان کرتے: احد کے دن میں پہلا شخص تھا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پلٹ کر آیا، میں نے ایک شخص کو دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دفاع کرتے ہوئے اللہ کی راہ میں قتال کر رہا ہے۔ میں نے کہا: تم طلحہ ہی ہو گے، مجھ سے تو یہ زریں موقع فوت ہو گیا۔ میرے اور مشرکین کے مابین ایک شخص تھا جس کو پہچان نہ سکا اور میں اس شخص کی بہ نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ قریب تھا، وہ اچھلتے ہوئے چل رہا تھا۔ دیکھتا ہوں تو وہ ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ تھے، پھر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے آپ کا رباعی دانت ٹوٹ گیا تھا۔ چہرہ انور زخمی ہو چکا تھا۔ خود کی دو کڑیاں دونوں رخسار میں آنکھ کے نیچے دھنس گئی تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا: اپنے ساتھی یعنی طلحہ کی خبر لو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم سے خون بہ رہا تھا۔ ہم آپ کی بات کی طرف توجہ نہ دے سکے اور میں نے آپ کے چہرۂ انور سے خود کی کڑیاں نکالنا چاہیں تو ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں آپ کو اللہ کا واسطہ دیتا ہوں مجھے نکالنے دیجیے۔ میں نے اپنا ارادہ ترک کر دیا۔ ایک طرف یہ فکر دامن گیر تھی کہ اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت پہنچے گی، لہٰذا انہوں نے اپنے منہ سے آہستہ آہستہ نکالنا شروع کیں، بالآخر ایک کڑی اپنے منہ سے کھینچ کر نکال دی، لیکن اس کوشش میں ان کا سامنے کا ایک نچلا دانت گر گیا۔ اب دوسری میں نے کھینچنی چاہی تو ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے پھر کہا: ابوبکر! اللہ کا و اسطہ دیتا ہوں، مجھے کھینچنے دیجیے۔ اس کے بعد دوسری آہستہ آہستہ کھینچی لیکن ان کا سامنے کا دوسرا نچلا دانت گر گیا۔ یقینا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ سب سے زیادہ حسین چہرہ والے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مرہم پٹی سے فارغ ہو کر ہم طلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے جو ایک گڑھے میں گرے ہوئے تھے، دیکھا تو ان کے جسم پر ستر (۷۰) سے زائد نیزے، تیر
Flag Counter