(مَا قَامَ زَیْدٌ وَعَمْروٌ، بَلْ أَحَدُہُمَا)[زید اور عمرو (دونوں) کھڑے نہیں ہوئے، بلکہ ان دونوں میں سے ایک کھڑا ہوا۔]
لیکن یہ نہیں کہا جاتا:
(مَا قَامَ زَیْدٌ وَلَا عَمْرُو، بَلْ أَحَدُہُمَا) [نہ زید کھڑا ہوا اور نہ ہی عمرو، بلکہ ان دونوں میں سے ایک کھڑا ہوا۔] [1]
۲: [اونگھ] اور [نیند]، دونوں کی صراحتاً نفی کی خاطر:
قاضی ابوسعود نے تحریر کیا ہے:
’’وَتَوْسِیْطُ کَلِمَۃُ [ لَا] لِلتَّنْصِیْصِ عَلٰی شَمُوْلِ النَّفْيِ لِکُلٍّ مِّنْہُمَا کَمَا فِي قَوْلِہٖ عَزَّوَجَلَّ: (وَلَا یُنْفِقُوْنَ نَفَقَۃً صَغِیْرَۃً وَّ لَا کَبِیْرَۃٌ) [2]…الآیۃ۔[3]
’’ان دونوں میں سے ہر ایک کی نص کے ساتھ نفی کی خاطر لفظ [لا] کو درمیان میں لایا گیا ہے، جیسے کہ ارشادِ باری تعالیٰ: {وَ لَا یُنْفِقُوْنَ نَفَقَۃً صَغِیْرَۃً وَّ لَا کَبِیْرَۃً} [اور وہ کوئی چھوٹی رقم خرچ نہیں کرتے اور نہ ہی بڑی] میں ((لا) کو درمیان میں لایا گیا ہے)۔‘‘
ہ: اللہ تعالیٰ سے [نیند] کی نفی کے متعلق ایک حدیث:
امام مسلم نے حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے، (کہ) انہوں نے بیان کیا: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان چار (باتوں) کے ساتھ کھڑے ہوئے۔[4]
|