ابوبکر رضی اللہ عنہ وہاں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلے۔ میں بھی آپ کے پیچھے ہو لیا۔ بنو اسلم کے کچھ لوگ آئے اور کہا: ابوبکر پر اللہ رحم کرے، کس سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مدد طلب کرنے جا رہے ہیں، حالانکہ انہوں نے ہی جو کہنا تھا، کہا۔ میں نے کہا: کیا آپ لوگوں کو معلوم ہے یہ کون ہیں؟ یہ ابوبکر صدیق ہیں، یہ یار غار ہیں، یہ ذو شیبۃ المسلمین (مسلمانوں کے بزرگ) ہیں۔ خبردار! اگر انہوں نے مڑ کر تمہیں دیکھ لیا کہ تم میری مدد کو آرہے ہو تو غصہ ہو جائیں گے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہہ دیں گے، تو آپ بھی ان کی وجہ سے غصہ ہو جائیں گے اور پھر ان دونوں کے غصہ ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ غصہ ہو جائے گا۔ پھر تو ربیعہ ہلاک ہو جائے گا۔ لوگوں نے کہا: آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ فرمایا: لوٹ جاؤ۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف روانہ ہوئے اور میں بھی تنہا ان کے پیچھے چلا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے اور واقعہ جوں کا توں بیان کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری طرف سر مبارک اٹھایا اور فرمایا: ربیعہ! تمہارا اور صدیق کا کیا معاملہ ہے؟ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ایسا ایسا ہوا ہے۔ انہوں نے مجھے ایک ناپسندیدہ بات کہی اور پھر مجھ سے کہا تم بھی مجھے وہی بات کہہ دو تاکہ بدلہ پورا ہو جائے۔ میں نے کہنے سے انکار کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا کیا، ان کو جواب مت دو بلکہ تم یہ کہو: ((غفر اللہ لک یا ابابکر)) ’’ابوبکر اللہ تمہیں بخش دے۔‘‘ میں نے کہا: ((غفر اللہ لک یا ابابکر)) ’’ابوبکر تمہیں اللہ بخش دے۔‘‘ امام حسن بصری فرماتے ہیں: ابوبکر رضی اللہ عنہ روتے ہوئے واپس ہوئے۔[1] سبحان اللہ یہ کیسا شعور ووجدان تھا اور کون سا نفس تھا۔ کسی مسلمان سے متعلق ایک بات ہو گئی تو اس وقت تک دم نہ لیتے جب تک بدلہ نہ چکا دیں یا وہ معاف نہ کر دے تاکہ فضیلت ہاتھ سے نہ چھوٹے، ادب واحترام نہ جانے پائے۔ یہ شعور ان کے دل ودماغ میں پیوست ہو چکا تھا جس کی وجہ سے زبان کی معمولی سی لغزش سے تلملا اٹھتے تھے اور اس وقت تک دم نہیں لیتے تھے جب تک اس کا بدلہ نہ چکا دیں یا وہ شخص معاف نہ کر دے۔ [2] بات معمولی تھی لیکن دل پر اس کا اثر گہرا پڑا اور اس کی وجہ سے ابوبکر رضی اللہ عنہ کانپ اٹھے اور بدلہ دینے کے لیے بے تاب ہو گئے، اس سے کم پر راضی نہ تھے باوجودیہ کہ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امت اسلامیہ میں پہلے نمبر پر تھے۔ اور یہ بات جو آپ کی زبان سے نکلی تھی فحش کلامی بھی نہیں ہو سکتی کیونکہ آپ کے |
Book Name | سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | شمیم احمد خلییل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 512 |
Introduction |