Maktaba Wahhabi

217 - 512
فیصلہ ہوگا اس کا ضعف جاتا رہے گا، عدل کی وجہ سے وہ قوی ہے اس کا حق نہ مارا جائے گا اور نہ ضائع ہوگا۔ قوی جس وقت ظلم کرتا حق اس کو روک دیتا، اس سے مظلوم کو بدلہ دلاتا۔ جاہ وسلطنت، قرابت اور مقام ومرتبہ اس کو نہیں بچا سکتا، یہی روئے زمین میں عزت وتمکین اور غلبہ کامل ہے۔[1] علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کتنی اچھی بات کہی ہے: یقینا اللہ تعالیٰ عدل پر قائم حکومت کی مدد کرتا ہے اگرچہ کافر ہو اور ظلم پر قائم حکومت کی مدد نہیں کرتا اگرچہ مسلم ہو… عدل کے ذریعہ سے لوگ صالح ونیک بنتے ہیں اور مال میں بڑھوتری ہوتی ہے۔[2] ۵۔ سچائی حاکم ومحکوم کے درمیان تعامل کی اساس وبنیاد ہے: ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: سچائی امانت ہے اور جھوٹ خیانت ہے۔[3] ابوبکر رضی اللہ عنہ نے امت کی قیادت کے لیے اپنے بنیادی اصول کا اعلان فرمایا کہ سچائی حاکم و امت کے درمیان تعامل کی اساس ہے، اس حکیمانہ سیاسی اصول کا امت کی قوت میں بڑا اہم اثر ہوتا ہے۔ اس سے حاکم و عوام کے مابین اعتماد مضبوط ہوتا ہے۔ یہ سیاسی خصلت اسلام کی دعوت صدق سے پیدا ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ (التوبۃ: ۱۱۹) ’’اے ایمان والو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور صادقین کے ساتھ رہو۔‘‘ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((ثلاثۃ لا یکلمہم اللہ یوم القیامۃ ولا یزکیہم ولا ینظر الیہم ولہم عذاب الیم: سیخ زان وملک کذاب وعائل متکبر۔))[4] ’’تین طرح کے لوگوں سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بات نہ کرے گا، نہ ان کو پاک کرے گا اور نہ ان کی طرف نظر اٹھائے گا: بوڑھا زانی، جھوٹا بادشاہ، متکبر فقیر۔‘‘ ’’سچائی امانت ہے اور جھوٹ خیانت ہے ‘‘ یہ کلمات معانی سے پر تھے، گویا کہ ان کلمات میں روح کار فرما تھی جو لوگوں کے درمیان صبح وشام گردش کرتی تھی اور جذبہ بیدار کرتی اور امید دلاتی تھی اور اس طرح ابوبکر رضی اللہ عنہ کی پوری توجہ معانی پر تھی، الفاظ کے اسیر نہ تھے، چیزوں کو ان کا صحیح مقام دیتے تھے۔ جھوٹا حاکم، خائن وکیل کی مانند ہے جو امت کی روٹی کھا کر اس کو دھوکہ دیتا ہے۔ وہ حاکم کتنا بدتر اور ہلاک ہونے والا ہے جو جھوٹ کو اپنی عادت بنا لے، جھوٹ کو سچ کہے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس کو خیانت سے متصف قرار دیا ہے، وہ اپنی رعایا کا پہلا دشمن
Flag Counter