Maktaba Wahhabi

216 - 512
دو لاکھ دینار تھا ان سب کو خیر کے کاموں میں تقسیم کر دیا۔[1] عدل ومساوات کو قائم کرنے میں آپ نے ربانی منہج کی پیروی کی اور کمزوروں کے حقوق کی نگہداشت کی، آپ نے یہی مناسب سمجھا کہ اپنے آپ کو انھی لوگوں کی صف میں رکھیں، پھر آپ پورے ہوش وحواس کے ساتھ ان کے ساتھ رہے، دنیاوی قوتوں کے عوامل واسباب آپ کو پھسلا نہ سکے…… یہ اسلام کی تصویر تھی اس شخص کی نگاہ میں جس نے ظلم وجور کو کچل کے رکھ دیا، عدل وانصاف کے ذریعہ سے لوگوں کے سر کو بلند کیا، جس پر اس کی سلطنت کا ایمان تھا اور جس کے ذریعہ امت وملت کی حفاظت ہوئی۔[2] ابوبکر رضی اللہ عنہ اوّل دن سے ان بلند پایہ مبادی اور اصولوں کو نافذ کرنے میں لگ گئے۔ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ عدل میں حاکم و محکوم کی عزت ہے، اسی لیے آپ نے اپنی اس سیاست کو نافذ العمل قرار دیا اور رب العالمین کا یہ ارشاد برابر دہراتے رہے: إِنَّ اللَّـهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَيَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ وَالْبَغْيِ ۚ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ (النحل: ۹۰) ’’اللہ تعالیٰ عدل کا، بھلائی کا اور قرابت داروں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی کے کاموں، ناشائستہ حرکتوں اور ظلم و زیادتی سے روکتا ہے، وہ خود تمہیں نصیحتیں کر رہا ہے کہ تم نصیحت حاصل کرو۔‘‘ ابوبکر رضی اللہ عنہ یہ چاہتے تھے کہ مسلمان دین پر مطمئن ہو جائیں اور اس کی طرف دعوت کی آزادی ملے۔ اور مسلمانوں کو اطمینان اس وقت حاصل ہوگا جب ان کا حاکم خواہشات نفسانی سے خالی ہو کر محض عدل کی بنیاد پر حکومت کرے۔ اس اساس وبنیاد پر حکومت کا تقاضا ہے کہ حاکم ہر شخصی اور ذاتی امتیازات سے بالاتر ہو اور اس کے اندر عدل ورحمت دونوں جمع ہوں۔ امور سلطنت پر فائز ہونے سے متعلق ابوبکر رضی اللہ عنہ کا نظریہ، انکارِ ذات اور اللہ کے لیے مطلق اخلاص وتجرد پر قائم تھا، جس کی وجہ سے آپ کمزوروں کی کمزوری اور معاشرہ کی ضرورت کا بھرپور احساس رکھتے تھے اور اپنے عدل کے ذریعہ سے خواہش نفس پر برتری حاصل کر لی تھی پھر سلطنت کے تمام مسائل کا، بڑے ہوں یا چھوٹے، پوری بیدار مغزی اور احتیاط کے ساتھ جائزہ لیتے تھے۔ [3] بنا بریں عدل کا پرچم لہرا رہا تھا، کمزور کو اپنے حق پر اطمینان تھا، اس کو مکمل یقین تھا کہ جب عدل کے ساتھ
Flag Counter