Maktaba Wahhabi

142 - 512
سے میری کمر میں کچوکے لگانے لگے لیکن چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری ران پر سر رکھ کر سو رہے تھے اس لیے میں نے حرکت نہ کی تاکہ آپ کی نیند خراب نہ ہو۔ آپ سوتے رہے یہاں تک کہ صبح ہو گئی اور پانی ندارد۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے آیت تیمم نازل فرمائی: {…فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا} (النساء: ۴۳) ’’…تو پاک مٹی سے تیمم کرو۔‘‘ اس پر اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے آل ابی بکر یہ تمہاری پہلی برکت نہیں ہے۔ (یعنی اس سے قبل بہت سی برکتیں تمہاری وجہ سے امت کو حاصل ہو چکی ہیں)۔ ام المومنین فرماتی ہیں: میں جس اونٹ پر تھی اس کو جب اٹھایا گیا تو ہار اس کے نیچے ہمیں ملا۔[1] اس واقعہ سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ادب واحترام کا غایت درجہ خیال رکھتے تھے اور جس چیز سے آپ کو تکلیف ومشقت پہنچے اسے کبھی برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ اگرچہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک انتہائی محبوب اور قریب ترین شخص مثلاً عائشہ رضی اللہ عنہا ہی سے کیوں نہ ہو۔ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، اہل ایمان اور اپنے نفس کے ساتھ ادب واحترام کے میدان میں دعاۃ وعلمائے امت کے لیے قدوہ و نمونہ تھے۔[2] ۱۰۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی نصرت وتائید: متعدد صحیح احادیث سے یہ بات ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر رضی اللہ عنہ کی نصرت وتائید فرماتے اور لوگوں کو آپ کی مخالفت سے منع کرتے تھے۔ ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھا تھا اتنے میں ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنا کپڑا اٹھائے ہوئے آئے، بایں طور کہ آپ کا گھٹنا دکھائی دے رہا تھا۔ یہ منظر دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إمّا صاحبکم فقد غامر)) ’’ضرور تمہارے ساتھی کا کسی سے جھگڑا ہوا ہے۔‘‘ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سلام کیا اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میرے اور ابن خطاب کے مابین کچھ باتیں ہو گئیں، میں نے انہیں ناراض کر دیا، پھر اپنے کیے پر میں نادم ہوا اور ان سے معافی طلب کی لیکن انہوں نے معاف کرنے سے انکار کر دیا۔ لہٰذا اس سلسلہ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار فرمایا: ((یغفر اللہ لک یا ابابکر)) ’’ابوبکر اللہ تمہاری بخشش فرمائے۔‘‘
Flag Counter