احد کے دن کہی تھی: اپنی تلوار میان میں ڈال لیجیے اور اپنے متعلق ہمیں افسوسناک خبر میں نہ ڈالیے اور مدینہ لوٹ چلیے۔اللہ کی قسم اگر آپ کے ساتھ کوئی افسوسناک حادثہ پیش آگیا تو اسلام کا نظام کبھی قائم نہ ہوگا۔‘‘ پھر آپ واپس ہو گئے۔[1] نعوذ باللہ! اگر علی رضی اللہ عنہ کا دل ابوبکر رضی اللہ عنہ کے لیے صاف نہ ہوتا اور جبراً بیعت کی ہوتی تو یہ سنہری موقع تھا، آپ اس کو ضرور غنیمت جانتے ہوئے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو جانے دیتے، ہو سکتا تھا کوئی حادثہ پیش آجاتا، ان سے نجات مل جاتی اور میدان آپ کے لیے خالی ہو جاتا۔ اور حاشا للہ اگر اس سے بڑھ کر آپ ان کو ناپسند کرتے ہوتے اور چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے تو کسی کو بھی ورغلا کر قتل کرا دیتے، جیسا کہ آج سیاسی لوگ اپنے حریفوں اور اعداء کے ساتھ کیا کرتے ہیں۔[2] ہم انبیاء کا کوئی وارث نہیں ہوتا، جو کچھ چھوڑ جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے[3] ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: فاطمہ اور عباس رضی اللہ عنہما ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور آپ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث، فدک کی زمین اور خیبر کا حصہ طلب کرنے لگے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ((لا نورث ، ما ترکنا صدقۃ ، وانما یأکل آل محمد من ہذا المال۔))[4] ’’ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا، جو کچھ ہم چھوڑ جاتے ہیں وہ صدقہ ہوا کرتا ہے۔ یقینا آل محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) اس مال سے کھاتے رہیں گے۔‘‘ اور ایک روایت میں ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو کام کیا کرتے تھے میں اس کو چھوڑ نہیں سکتا، اس کو ضرور کروں گا، اگر میں نے اس میں سے کسی چیز کو چھوڑ دیا تو گمراہ ہو جاؤں گا۔[5] ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کی ازواج مطہرات نے عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بھیجنا چاہا تاکہ میراث کا مطالبہ کریں، تو ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نہیں ہے کہ ((لا نورث ما ترکنا صدقۃ)) [6] ’’ہمارا کوئی |
Book Name | سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | شمیم احمد خلییل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 512 |
Introduction |