عمرو بن حریث نے سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے سوال کیا: کیا آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت موجود تھے؟ فرمایا: ہاں۔ عمرو: ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کب عمل میں آئی؟ سعید: جس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی۔ بغیر جماعت وامام کے مسلمانوں کو دن کا کچھ حصہ گذارنا بھی ناپسند تھا۔ عمرو: کیا کسی نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی مخالفت کی؟ سعید: نہیں، کسی نے مخالفت نہیں کی، صرف مرتد یا ارتداد سے قریب شخص نے مخالفت کی۔ انصار کو اللہ تعالیٰ نے بچا لیا انہوں نے آپ کی خلافت پر متفق ہو کر آپ سے بیعت کی۔ عمرو: کیا مہاجرین میں سے کوئی آپ کی بیعت سے پیچھے رہا؟ سعید: نہیں، بلکہ مہاجرین تو آپ کی بیعت کے لیے ٹوٹ پڑے؟[1] علی رضی اللہ عنہ تو کسی وقت بھی آپ سے جدا نہیں ہوئے اور کسی جماعت میں آپ سے کٹ کر نہیں رہے، مسلمانوں کے امور کی تدبیر اور مشورے میں برابر شریک رہتے۔[2] حافظ ابن کثیر اور بہت سے اہل علم کا خیال ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے چھ ماہ یعنی فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد بیعت کی دوبارہ تجدید فرمائی۔ اس دوسری بیعت سے متعلق صحیح روایات وارد ہیں۔[3] علی رضی اللہ عنہ خلافت صدیقی میں بھلائی وخیرخواہی کا محور و مرکز تھے۔ اسلام اور مسلمانوں کے مصالح کو ہر چیز پر ترجیح دیتے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے لیے آپ سے مخلص ہونے، اسلام اور مسلمانوں کے لیے خیر خواہ، خلافت کی حفاظت و بقا اور مسلمانوں کی یکجہتی کے حریص ہونے پر آپ کا وہ مؤقف روشن دلیل ہے جو آپ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ اختیار کیا، جس وقت وہ بذات خود مرتدین کا قلع قمع کرنے کے لیے ذوالقصہ کی طرف روانہ ہوئے اور عسکری کارروائیوں کی قیادت کرنا چاہی کیونکہ آپ کی قیادت کی صورت میں اسلامی وجود کو خطرہ تھا۔[4] چنانچہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ جب ابوبکر رضی اللہ عنہ ذوالقصہ کی طرف روانہ ہونے کے لیے تیار ہوئے اور اپنی سواری پر سوار ہو گئے تو علی رضی اللہ عنہ نے فوراً لگام تھام لی اور عرض کیا: ’’خلیفہ رسول! آپ کدھر جا رہے ہیں؟ میں آپ سے وہی بات کہتا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے |
Book Name | سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | شمیم احمد خلییل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 512 |
Introduction |