کان من اہل الجہاد دعی من باب الجہاد ، ومن کان من اہل الصیام دعی من باب الریان ، ومن کان من اہل الصدقۃ دعی من باب الصدقۃ۔)) ’’جس شخص نے اللہ کی راہ میں کسی چیز کے جوڑے خرچ کیے اس کو جنت کے دروازوں سے پکارا جائے گا، جو نمازیوں میں سے ہوگا اس کو باب الصلوٰۃ سے، جو مجاہدین میں سے ہوگا اس کو باب الجہاد سے، جو روزہ داروں میں سے ہوگا اس کو باب الریان سے، جو زکوٰۃ و صدقات ادا کرنے والوں میں سے ہوگا اس کو باب الصدقہ سے پکارا جائے گا۔‘‘ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! جو ان دروازوں سے پکارا جائے گا اس کو پھر کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی لیکن کیا کوئی ایسا ہوگا جس کو تمام دروازوں سے پکارا جائے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((نعم وارجو ان تکون منہم یا ابابکر۔))[1] ’’ہاں، اے ابوبکر! مجھے امید ہے کہ تم انھی میں سے ہو گے۔‘‘ ۲۔ آپ کا علم: ابوبکر رضی اللہ عنہ اللہ کو سب سے زیادہ جاننے والے اور اس کا سب سے زیادہ خوف رکھنے والے تھے۔[2] اور اہل سنت کا اس پر اتفاق ہے کہ آپ امت کے سب سے بڑے عالم ہیں اور بہت سے لوگوں نے اس پر اجماع نقل کیا ہے۔[3] تمام صحابہ پر علم وفضل میں آپ کی برتری کا سبب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دائمی رفاقت ہے۔ شب وروز، سفر وحضر ہمیشہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوتے۔ آپ عشاء کے بعد بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہتے اور مسلمانوں کے امور سے متعلق گفتگو فرماتے جب کہ دیگر صحابہ اس وقت آپ کے ساتھ نہ ہوتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی مسئلہ میں صحابہ کرام سے مشورہ فرماتے تو سب سے پہلے شوریٰ میں ابوبکر رضی اللہ عنہ ہی گفتگو فرماتے، پھر دیگر لوگ بات کرتے اور بسا اوقات دوسرے لوگ بات نہ کرتے صرف آپ کی رائے پر عمل کیا جاتا اور اگر دوسرے لوگوں کی رائے آپ کی رائے سے مختلف ہوتی تو دوسروں کی رائے کو چھو ڑ کر آپ کی رائے اختیار فرماتے۔[4] |
Book Name | سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | شمیم احمد خلییل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 512 |
Introduction |