Maktaba Wahhabi

153 - 512
فرمایا: عائشہ کے باپ۔ میں نے عرض کیا: پھر کون؟ فرمایا: عمر بن خطاب۔ پھر اور لوگوں کے نام گنائے۔[1] اسی ایمان عظیم، پابندی شریعت اور دین کی نصرت وتائید میں بے پایاں کوششوں کی وجہ سے آپ بزبان رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم جنت کی بشارت کے مستحق قرار پائے اور آپ کو جنت کے تمام دروازوں سے پکارا جائے گا۔ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے گھر میں وضو کیا، پھر باہر نکلے، فرماتے ہیں: میں نے اپنے جی میں کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ضرور ملوں گا اور آج پورا دن آپ کے ساتھ رہوں گا۔ مسجد پہنچا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق دریافت کیا، تو لوگوں نے بتلایا: آپ یہاں سے نکل چکے ہیں اور اس سمت کا رخ کیا ہے۔ میں بھی آپ کے پیچھے آپ سے متعلق پوچھتے ہوئے چل پڑا، آپ بئر اریس کے احاطے میں داخل ہوئے۔ میں دروازے پر بیٹھ گیا، دروازہ کھجور کی ٹہنیوں کا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قضائے حاجت سے فارغ ہو کر وضو فرمایا۔ پھر میں آپ کے پاس آیا، آپ بئر اریس کی جگہ کے درمیان تشریف فرما تھے۔ دونوں پنڈلیاں کھول کر کنویں میں لٹکا رکھی تھیں۔ میں نے آپ کو سلام کیا پھر واپس آکر دروازے پر بیٹھ گیا اور یہ طے کر لیا کہ آج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دربانی کروں گا۔ اتنے میں ابوبکر رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور دروازہ دھکیلا۔ میں نے کہا: کون؟ فرمایا: ابوبکر۔ میں نے کہا: ٹھہریے۔ پھر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ابوبکر آنے کی اجازت چاہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: انہیں آنے دو اور جنت کی بشارت سنا دو۔ میں آیا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا: تشریف لایئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو جنت کی بشارت دے رہے ہیں۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ داخل ہوئے اور کنویں کی جگہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں آپ کے ساتھ آپ کی طرح پنڈلیاں کھول کر دونوں پیر کنویں میں لٹکا کر بیٹھ گئے…… الحدیث[2] اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((من انفق زوجین من شیٔ من الاشیاء فی سبیل اللہ دعی من ابواب الجنۃ: یا عبداللہ ہذا خیر، فمن کان من اہل الصلاۃ دعی من باب الصلاۃ، ومن
Flag Counter