علاوہ کسی کی (اپنے آقا کی نافرمانی کرتے ہوئے) اطاعت کرے۔‘‘
۲: شیخ ابن عاشور نے تحریر کیا ہے:
’’{لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ} تَقْرِیْرٌ لِّانْفِرَادِہٖ بِالْإِلٰہِیَّۃِ ، إِذْ جَمِیْعُ الْمَوْجُوْدَاتِ مَخْلُوْقَاتُہٗ۔‘‘[1]
’’[لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ] ان کے بحیثیت معبود یکتا اور منفرد ہونے کی تاکید ہے، کیونکہ تمام موجود چیزیں تو ان کی مخلوق ہیں۔‘‘
و: جملے کے دیگر پانچ فوائد:
اللہ تعالیٰ کے الوہیت و عبودیت کے تنہا مستحق ہونے پر دلالت کرنے کے علاوہ اس جملے کے دیگر فوائد بھی ہیں۔ انہی میں سے پانچ درجِ ذیل ہیں:
۱: بندے کا اپنے پاس موجود چیزوں کا حقیقی مالک نہ ہونا:
ہر چیز کے حقیقی مالک صرف اللہ عزوجل ہیں۔ کچھ چیزیں اور مال ، آزمائش و امتحان کے لیے بندے کے ہاتھ میں دیا جاتا ہے۔ قرآن و سنت کی متعدد نصوص اس حقیقت پر دلالت کرتی ہیں۔ انہی میں سے تین ذیل میں ملاحظہ فرمائیے:
ا: اللہ تعالیٰ نے آزادی حاصل کرنے کے خواہاں غلاموں سے تعاون کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
{وَّآتُوْہُمْ مِّنْ مَّالِ اللّٰہِ الَّذِیْٓ آتَاکُمْ}[2]
[اور اللہ تعالیٰ کے مال سے ، جو انہوں نے تمہیں دیا ہے، انہیں دو۔]
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے پاس موجود مال کو [مَالُ اللّٰہِ] [اللہ تعالیٰ کا مال] کا نام دیا۔
|