((لو تعلمون ما اعلم لضحکتم قلیلا ولبکیتم کثیرا، فغطی اصحاب رسول اللہ صلي الله عليه وسلم وجوہہم ولہم حنین۔))[1] ’’اگر تمہیں وہ معلوم ہو جائے جو مجھے معلوم ہے تو تمہاری ہنسی کم ہو جائے گی اور رونا زیادہ ہو جائے گا۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے اپنے چہرے ڈھانپ لیے اور ان سے رونے کی آواز آنے لگی۔‘‘ ابوبکر رضی اللہ عنہ خوف ورجاء کے پیکر تھے، جس کی وجہ سے آپ ہر مسلمان کے لیے جو آخرت میں فوز و فلاح کا طالب ہو عملی قدوہ ونمونہ تھے، خواہ وہ حاکم ہو یا محکوم، قائد ہو یا عام سپاہی۔[2] محمد بن سیرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر کوئی اللہ سے ڈرنے والا نہیں۔ اور قیس کا بیان ہے: میں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو دیکھا، آپ اپنی زبان پکڑے ہوئے فرما رہے تھے: یہی ہے جو مجھے ہلاکت کی جگہ پہنچاتی ہے۔[3] اور ابوبکر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: روؤ، اور اگر رو نہیں سکتے تو رونے کی صورت بناؤ۔[4] اور میمون بن مہران سے روایت ہے: ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس مکمل پر والا کوّا لایا گیا، آپ نے اس کو الٹا پلٹا، پھر فرمایا: جو شکار بھی کیا گیا اور جو درخت بھی کاٹا گیا وہ محض ان کے تسبیح نہ کرنے کی وجہ سے۔[5] حسن بصری رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: واللہ میری یہ خواہش ہے کہ میں یہ درخت ہوتا جو کھا لیا جاتا یا کاٹ دیا جاتا۔[6] نیز فرمایا: میری یہ خواہش ہے کہ میں بندہ مومن کے جسم کا ایک بال ہوتا۔[7] اور آپ یہ شعر پڑھا کرتے تھے: لا تزالُ تنعٰی حبیبا حتی تکونہ وقد یرجو الرجا یموت دونہ ’’برابر تو محبوب کی موت کی اطلاع دیتا رہا یہاں تک کہ تو ہی اس مقام کو پہنچ گیا اور انسان امیدیں باندھتا ہے اور اس راستے میں مر جاتا ہے۔‘‘ |
Book Name | سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | شمیم احمد خلییل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 512 |
Introduction |