Maktaba Wahhabi

98 - 512
ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مسلم خاندان کی نادر الوجود مثال قائم کی۔ اپنے اس مؤقف کے ذریعہ سے اسماء رضی اللہ عنہا نے مسلم خواتین اور بچیوں کے لیے ایسی مثال قائم کی جس کی اقتدا کی انہیں شدید ضرورت ہے۔ اسماء رضی اللہ عنہا اپنے بھائی بہنوں کے ساتھ مکہ میں رہیں، نہ کسی تنگی کی شکایت اور نہ کسی ضرورت کا اظہار کرتیں۔ یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زید بن حارثہ اور اپنے غلام ابو رافع رضی اللہ عنہما کو دو اونٹنیاں اور پانچ سو درہم دے کر مکہ روانہ کیا تاکہ آپ کے اہل وعیال کو مدینہ لے آئیں۔ چنانچہ فاطمہ، ام کلثوم، ام المومنین سودہ بنت زمعہ، اسامہ بن زید اور ان کی والدہ ام ایمن کو لے کر دونوں مدینہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے اور انھی دونوں کے ساتھ عبداللہ بن ابوبکر رضی اللہ عنہما آل ابوبکر کو لے کر مدینہ پہنچے۔[1] ابوبکر رضی اللہ عنہ کے غلام عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ کا کردار: عام طور پر اکثر لوگوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ خادموں کی پرو ا نہیں کرتے، ان کے امور کا اہتمام نہیں ہوتا ہے لیکن اللہ والے اس سے مستثنیٰ ہیں۔ وہ جس سے بھی ملتے ہیں اس کی ہدایت کی فکر ان کو دامن گیر ہوتی ہے اور اس کی خاطر پوری کوشش صرف کرتے ہیں۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے غلام عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ کو علم وادب سکھایا اور ان کی ایسی تربیت فرمائی کہ وہ اسلام اور خدمت دین کی خاطر قربان ہونے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ہجرت کے سلسلہ میں ان کے لیے اہم کردار وذمہ داری متعین فرمائی، وہ مکہ کے چرواہوں کے ساتھ بکریاں چراتے، کسی چیز کی طرف التفات نہ کرتے، جب شام ہوتی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بکریاں لے کر غار کے پاس پہنچتے اور دودھ پیش کرتے، پھر عبداللہ بن ابوبکر رضی اللہ عنہما صبح کے وقت غار سے واپس ہوتے، اپنی بکریاں لے کر ان کے پیچھے نکلتے تاکہ ان کے قدموں کے آثار مٹ جائیں۔ سفر ہجرت کو کامیاب بنانے میں انتہائی ذہانت اور فطانت کو کام لانے کا اس سے پتہ چلتا ہے۔[2] یہاں ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ذریعہ سے امت کو اہم سبق ملتا ہے تاکہ وہ اپنے ان خادموں کا اہتمام کریں جنہیں مشرق ومغرب سے لاتے ہیں اور ان کے ساتھ انسانوں جیسا معاملہ کریں، پھر انہیں اسلام کی تعلیم دیں، امید کہ اللہ تعالیٰ ان میں سے دین کے حاملین تیار کرے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ہجرت کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کے لیے اپنے خاندان کو تیار کیا، اس سے یہ بات روز روشن کی طرح آشکارا ہو جاتی ہے کہ آپ نے تمام امور کی تدابیر انتہائی دقیق اور نرالے انداز میں کی تھیں، انتہائی حکیمانہ اسلوب میں احوال و ظروف کے مطابق احتیاط کو ملحوظ رکھا تھا، ہر شخص کو اس کے موزوں ومناسب مقام پر رکھا تھا۔ خطرات کے تمام دروازوں کو بند کر دیا تھا اور اتنے ہی اشخاص پر اکتفا کیا جن کی ضرورت تھی۔
Flag Counter