Maktaba Wahhabi

97 - 512
کمر بند پھاڑ کر اس کو باندھا، جس کی وجہ سے ان کا ذات النطاقین نام پڑ گیا۔[1] مسلمانوں کے راز کو چھپانے اور اس راہ میں تکلیف اٹھانے میں اسماء رضی اللہ عنہما کا کردار: اسماء رضی اللہ عنہا نے دین کی فہم وبصیرت رکھنے والی اور اسلامی دعوت کے اسرار کی محافظ مسلمان خاتون کا کردار اجاگر کیا جو مشکلات و اذیت کا پیش خیمہ ہوا کرتا ہے۔ چنانچہ اسماء رضی اللہ عنہا خود بیان کرتی ہیں: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ ہجرت پر نکل گئے تو قریش کے کچھ لوگ میرے پاس آئے جن میں ابوجہل بن ہشام بھی تھا۔ یہ لوگ دروازے پر کھڑے ہوئے، میں باہر نکلی، انہوں نے مجھ سے دریافت کیا: تمہارا باپ کدھر گیا؟ میں نے کہا: اللہ کی قسم مجھے پتہ نہیں کہ میرے والد کہاں ہیں۔ ابوجہل جو خبیث اور گندہ آدمی تھا اپنا ہاتھ اٹھایا اور میرے رخسار پر ایسا طمانچہ رسید کیا کہ میرے کان کی بالی گر گئی اور پھر وہ لوگ واپس ہو گئے……[2] یہاں نسلاً بعد نسل آنے والی خواتین اسلام کو اسماء رضی اللہ عنہا یہ سبق سکھا رہی ہیں کہ وہ اعدائے اسلام سے مسلمانوں کے اسرار کو کس طرح مخفی رکھیں اور ظلم وطغیان کے مقابلہ میں کس طرح پہاڑ بن کر کھڑی ہوں۔ گھر کے اندر امن واطمینان پیدا کرنے میں اسماء رضی اللہ عنہا کا کردار: ابوبکر رضی اللہ عنہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں ہجرت پر روانہ ہوئے تو جو کچھ راس المال آپ کا تھا اپنے ساتھ لے چلے جو تقریباً پانچ یا چھ ہزار درہم تھا۔ آپ کے والد ابوقحافہ کو جن کی بینائی جا چکی تھی بچوں کی فکر دامن گیر ہوئی، اطمینان خاطر کے لیے بیٹے کے گھر تشریف لائے، بچوں سے کہا: مجھے ایسا لگتا ہے کہ تمہارا باپ اپنا مال ومتاع ساتھ لے گیا اور تمہیں پریشانی میں ڈال گیا؟ اسماء رضی اللہ عنہا نے کچھ پتھر اکٹھے کر کے عرض کیا: ابا جان! بات ایسی نہیں ہے، آپ اس مال پر ہاتھ رکھ کر دیکھیں، ہاتھ رکھا تو اطمینان کا سانس لیا اور کہا: کوئی بات نہیں، یہ چھوڑ گیا تو بہت اچھا کیا، تمہارے لیے یہ کافی ہوگا۔ اسماء رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: اللہ کی قسم حقیقت یہ تھی کہ والد صاحب نے کچھ نہیں چھوڑا تھا، میں نے تو اس طرح کر کے بوڑھے دادا کو تسلی دینا چاہی تھی۔[3] اس ذہانت اور حکمت عملی کے ذریعہ سے اپنے والد کی پردہ پوشی کی اور اپنے اندھے دادا کو تسلی دی، اور یہ کوئی کذب بیانی نہ تھی، والد محترم نے حقیقت میں ان پتھروں کو چھوڑا تھا جس کا ڈھیر بنا کر اسماء رضی اللہ عنہا نے بوڑھے دادا کو اطمینان دلایا تھا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے صرف یہی پتھر نہیں بلکہ سب سے بڑی دولت ایمان باللہ کی دولت ان کے لیے چھوڑی تھی جس میں نہ پہاڑ تزلزل پیدا کر سکتے ہیں اور نہ تیز وتند آندھیاں حرکت دے سکتی ہیں اور وہ مال کی قلت وکثرت سے متاثر نہیں ہوا کرتا ہے۔ یقین و توکل کا وارث بنایا تھا جس کی کوئی حد نہیں۔ ان کے اندر بلند ہمت اور حوصلہ پروان چڑھایا تھا،جو بلندیوں کے طالب ہوتے ہیں پستیوں کو جھانکتے بھی نہیں۔ اس طرح
Flag Counter