Maktaba Wahhabi

170 - 512
’’آج کے بعد تیرے باپ پر کوئی پریشانی نہیں آئے گی۔‘‘ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی تو فاطمہ رضی اللہ عنہا نے فرط غم سے فرمایا: ((یا ابتاہ اجاب اللّٰہ دعاہ، یا ابتاہ من جنۃ الفردوس مأواہ، یا ابتاہ الی جبریل ننعاہ۔)) ’’ہائے ابا جان! جنہوں نے پروردگار کی پکار پر لبیک کہا۔ ہائے ابا جان! جن کا ٹھکانا جنت الفردوس ہے۔ ہائے ابا جان! ہم جبریل کو آپ کی موت کی خبر دیتے ہیں۔‘‘ اور جب آپ کو دفن کر دیا گیا تو فرمایا: ((یا انس کیف طابت نفوسکم ان تحثوا علی رسول اللہ صلي الله عليه وسلم التراب۔)) ’’اے انس! کیسے تم کو گوارا ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر مٹی ڈالو۔‘‘[1] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس دار فانی سے رخصت ہوئے۔ آپ جزیرہ عرب پر حکمرانی کر رہے تھے اور بادشاہان عالم آپ سے لرزاں ومرعوب تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنی جان، مال اور اولاد آپ پر نچھاور فرما رہے تھے۔ وفات کے وقت آپ نے نہ درہم ودینار چھوڑا اور نہ لونڈی وغلام۔ صرف ایک سفید خچر اور ہتھیار چھوڑے اور ایک زمین جسے امت کے لیے صدقہ کر دیا۔[2] وفات کے وقت آپ کی زرہ تیس صاع جو کے عوض ایک یہودی کے پاس رہن پر تھی۔[3] یہ واقعہ یوم دوشنبہ۱۲ ربیع الاوّل۱۱ہجری بعد از زوال[4] پیش آیا، اس وقت آپ کی عمر تریسٹھ (۶۳) سال تھی۔[5] آج کا دن مسلمانوں کے لیے انتہائی دلفگار، تاریک اور وحشت ناک تھا اور بشریت کے لیے بڑی آزمائش کی گھڑی تھی، جس طرح کہ آپ کی ولادت کا دن سب سے زیادہ سعادت افزا تھا۔[6] انس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں: جس روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تھے پورا مدینہ روشن ہو گیا تھا اور جس دن آپ کی وفات ہوئی پورا مدینہ تاریک ہو گیا۔[7] اس حادثہ دلفگار پر ام ایمن سے رہا نہ گیا وہ رونے لگیں۔ پوچھا گیا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کیوں رو رہی ہو؟ فرمایا: میں پہلے سے جانتی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گی لیکن میں آج وحی الٰہی کے منقطع ہو جانے پر رو رہی ہوں۔[8]
Flag Counter