Maktaba Wahhabi

100 - 512
یا عین صار الدَّمعُ عندکِ عادۃً تبکین مِنْ فرح ومن أحزان ’’اے آنکھ! آنسو بہانا تیری عادت ہے، خوشی وغم دونوں سے روتی ہے۔‘‘ ابوبکر رضی اللہ عنہ جانتے تھے کہ اس صحبت کا مطلب ہے کہ وہ تنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت میں کم از کم تیرہ دن تک رہیں گے اور اپنی زندگی کو اپنے قائد و رہنما اور آقا ومحبوب مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پیش کریں گے، وجود میں اس سے بڑھ کر اور کامیابی کیا ہو سکتی ہے کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ تمام صحابہ اور روئے زمین کے تمام لوگوں کے مقابلہ میں تنہا اس مدت کے اندر سید خلق صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت ورفاقت سے مشرف ہوں۔[1] حب فی اللہ کا مفہوم اس وقت عیاں ہوتا ہے جب غار کے اندر ابوبکر رضی اللہ عنہ کو خوف دامن گیر ہوا کہ کہیں مشرکین انہیں دیکھ نہ لیں، یہاں صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے دعوت اسلامی کے سچے سپاہی کے لیے مثال قائم کی ہے کہ جب قائد ورہنما خطرات سے گھر جائے تو کس طرح اس کی زندگی کی فکر اور خوف دامن گیر ہونا چاہیے۔ اس وقت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اپنی موت کی فکر نہ تھی بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور اسلام کے مستقبل کی فکر دامن گیر تھی کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہیں کفار کی گرفت میں آگئے تو پھر کیا ہوگا؟ اگر ان کو اپنی فکر ہوتی تو کبھی پر خطر سفر ہجرت میں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت اختیار نہ کرتے، کیونکہ ان کو بخوبی معلوم تھا کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گرفتار کیے گئے تو اس کی سزا کم از کم قتل ہے۔ [2] واقعہ ہجرت میں مختلف مواقع پر ابوبکر رضی اللہ عنہ کا امن وحفاظت سے متعلق شعور اجاگر ہوتا ہے۔ مثلاً جب آپ سے سوال کیا گیا کہ یہ آپ کے ساتھ کون ہیں؟ فرمایا: یہ رہنما ہیں، ہمیں راستہ دکھاتے ہیں۔ سوال کرنے والے نے تو یہ سمجھا کہ راستہ کی رہنمائی کرتے ہیں لیکن صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا مقصود عام راستہ کی رہنمائی نہیں بلکہ راہ حق کی رہنمائی تھی۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کذب بیانی اور حرج سے بچنے کے لیے تعرض و توریہ کا استعمال انتہائی خوش اسلوبی سے کرتے تھے۔[3] یہاں سائل کے جواب میں توریہ اختیار کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امن وحفاظت سے متعلق تربیت کو نافذ کیا ہے، کیونکہ ہجرت بڑے راز دارانہ طریقہ سے عمل میں آئی، اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر انہیں ٹوکا نہیں۔[4] رابعاً: روحانی قیادت اور نفوس کے ساتھ تعامل کا فن: سفر ہجرت سے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دل پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گہری محبت عیاں ہوتی ہے۔ اسی طرح تمام صحابہ کی محبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ میں نمایاں ہے۔ یہ ربانی محبت دل کی گہرائیوں سے ابھری تھی اور
Flag Counter