Maktaba Wahhabi

101 - 512
اخلاص پر مبنی تھی، یہ منافقانہ محبت نہ تھی، اس کے پیچھے دنیوی مصلحت یا نفع کی خواہش اور نقصان کا خوف کار فرما نہ تھا۔ اس محبت کا سبب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبنی برحکمت قائدانہ صفات تھیں، آپ لوگوں کو سلانے کے لیے بیدار رہتے، ان کی راحت کے لیے تھکتے اور ان کی آسودگی کے لیے بھوکے رہتے۔ ان کی خوشی میں خوش ہوتے اور ان کے غم میں غمگین ہوتے۔ جو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو اپنے ساتھیوں کے ساتھ اپنی زندگی میں نافذ العمل کرے، لوگوں کی خوشی وغم میں شریک رہے اور اس کا یہ عمل اللہ واسطے ہو، اسے یہ محبت حاصل ہو گی۔ خواہ وہ لیڈر وقائد ہو یا عام ذمہ دار۔[1] لیبی شاعر احمد رفیق مہدوی نے سچ کہا ہے: فإذا احبَّ اللّٰہ باطن عبدہ ظہرت علیہ مواہبُ الفتَّاح ’’جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے کے باطن کو پسند کرتا ہے تو خداداد صلاحیتوں کا اس پر ظہور ہوتا ہے۔‘‘ وإذا صفت للّٰہ نیۃ مصلح مال العباد علیہ بالارواح[2] ’’جب مصلح کی نیت اللہ کے لیے خالص ہو جاتی ہے تو اللہ کے بندے اس کی طرف اپنی روحوں کے ساتھ متوجہ ہوتے ہیں۔‘‘ صحیح قیادت ہی ہر چیز سے پہلے روحانی قیادت اور نفوس کے ساتھ تعامل کی استطاعت رکھتی ہے اور جس قدر قیادت اچھی ہو گی اسی قدر سپاہی اچھے تیار ہوں گے اور قیادت کی جانب سے جس قدر احسان اور داد و دہش زیادہ ہوگی اسی قدر افواج کی محبت زیادہ ہو گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے متبعین اور سپاہیوں کے ساتھ بے انتہا شفیق ومہربان تھے۔ آپ نے اس وقت تک ہجرت نہ کی جب تک آپ کے اکثر صحابہ نے ہجرت نہ کر لی، صرف کمزور ستائے ہوئے مجبور لوگ اور جنہیں ہجرت کے لیے کچھ مخصوص پریشانیاں تھیں رہ گئے تھے۔[3] قابل ذکر بات یہ ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو محبت تھی وہ اللہ واسطے تھی۔ اللہ واسطے محبت اور غیر اللہ کے واسطے محبت کے درمیان فرق کو جو چیز واضح کرتی ہے وہ یہ کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت صرف اللہ کے لیے تھی، اور ابوطالب کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اللہ کے لیے نہ تھی بلکہ اپنی خواہشات کے لیے تھی۔ اس لیے اللہ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عمل کو قبولیت سے ہمکنار فرمایا اور یہ آیات ان کی شان میں نازل فرمائیں:
Flag Counter