بلکہ خود اپنے اوپر انہیں ترجیح دیتے ہیں، گو خود کو کتنی ہی سخت حاجت ہو، (بات یہ ہے) کہ جو بھی اپنے نفس کے بخل سے بچایا گیا وہی کامیاب (اور بامراد) ہے۔‘‘ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انصار سے کہا: اللہ نے تمہیں حکم دیا ہے کہ ہمارے ساتھ رہو، ہم جہاں بھی ہوں۔ارشاد ربانی ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ (التوبۃ: ۱۱۹) ’’اے ایمان والو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور صادقین کے ساتھ رہو۔‘‘ اس طرح دیگر درخشاں اقوال اور قوی دلائل کو پیش کیا جس سے انصار نے عبرت حاصل کی اور آپ کی اطاعت کو قبول کیا۔[1] ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے خطاب میں یہ واضح فرمایا کہ خلافت کے لیے وہی لوگ پیش کیے جا سکتے ہیں کہ عرب جن کی سیادت وقیادت کو قبول کریں اور جن سے استقرار پیدا ہو، اور فتنے رونما نہ ہوں۔ اور اس حقیقت کو واشگاف کیا کہ عرب صرف قریشی مسلمانوں کی قیادت کو تسلیم کر سکتے ہیں، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انھی میں سے ہیں اور پھر ان کے ذہن ودماغ میں قریش کی تعظیم واحترام پہلے سے جاگزیں ہے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ان روشن کلمات کے ذریعہ سے انصار مطمئن ہو گئے کہ وہ مہاجرین قریش کے معاون ووزراء اور مخلص سپاہی بن کر رہیں گے جس طرح وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں تھے۔ اس طرح مسلمان متحد ہو گئے اور ان کا شیرازہ منتشر ہونے سے بچ گیا۔[2] ۲۔ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت سے بے نیازی اور سب کے پیش نظر وحدت امت: ابوبکر رضی اللہ عنہ سقیفہ بنی ساعدہ میں جب اپنی بات مکمل کر چکے تو عمر اور ابوعبیدہ رضی اللہ عنہما کو خلافت کے لیے پیش کیا، عمر رضی اللہ عنہ کو یہ بات ناپسند آئی اور بعد میں اس کا اظہار بھی کیا، فرماتے ہیں: ’’مجھے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی صرف یہ بات ناپسند آئی، واللہ میری گردن مار دی جائے یہ اس سے بہتر ومحبوب ہے کہ میں ایسے لوگوں پر امیر بنوں جن میں ابوبکر رضی اللہ عنہ جیسے لوگ ہوں۔‘‘[3] چونکہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے سب سے زیادہ مستحق خلافت ہونے پر عمر رضی اللہ عنہ کو قناعت و اطمینان حاصل تھا، اس لیے انہوں نے ان سے کہا: ’’ابوبکر! ہاتھ بڑھائیں۔‘‘ انہوں نے ہاتھ بڑھایا۔ عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے آپ سے بیعت کی، پھر مہاجرین نے بیعت کی اور پھر انصار نے بیعت کی۔ اور ایک روایت میں ہے: |
Book Name | سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | شمیم احمد خلییل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 512 |
Introduction |