Maktaba Wahhabi

198 - 512
میرے پاس ابوبکر اور اپنے بھائی کو بلاؤ، میں ان کے لیے ایک عہد نامہ لکھ دوں کیونکہ مجھے خدشہ ہے کہ تمنا کرنے والا تمنا کرے اور کہنے والا کہے کہ میں (خلافت) کا زیادہ حقدار ہوں حالانکہ اللہ تعالیٰ اور اہل ایمان صرف ابوبکر کو چاہتے ہیں۔‘‘ اور اسی طرح اس حدیث سے ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا خواب بیان کیا ہے کہ آپ حوض پر تھے اور لوگوں کو اس سے پانی نکال کر پلا رہے تھے، پھر ابوبکر آئے اور آپ کے ہاتھ سے ڈول لے کر پانی نکالنے لگے تاکہ آپ کو آرام ملے۔[1] بحث وتحقیق کے نتیجے میں جس رائے پر میں پہنچا ہوں اور جس کی طرف میرا رجحان ہے وہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو اس کا حکم نہیں فرمایا کہ وہ ابوبکر کو آپ کے بعد خلیفہ بنائیں لیکن آپ نے ان کی اس طرف رہنمائی کی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بتلا دیا تھا کہ اہل ایمان ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اپنا خلیفہ منتخب کریں گے، اس لیے کہ آپ کو وہ تمام فضائل عالیہ حاصل ہیں جو قرآن وسنت میں وارد ہیں اور اس کی وجہ سے آپ تمام امت پر فوقیت رکھتے ہیں۔[2] علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: تحقیقی بات یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو ابوبکر رضی اللہ عنہ کے خلیفہ بنائے جانے کی خبر دی اور اپنے اقوال وافعال کے ذریعہ سے آپ نے اس کی طرف ان کی رہنمائی فرمائی، اور آپ کی خلافت کی اچھے انداز میں خبر دی اور اس سلسلہ میں عہد نامہ لکھنے کا عزم کیا، پھر جب آپ کو معلوم ہو گیا کہ مسلمان آپ کی خلافت پر متفق ہو جائیں گے تو اس پر اکتفا کرتے ہوئے آپ نے عہد نامہ لکھنے کا ارادہ ترک کر دیا۔ اگر خلیفہ کی تعیین امت پر مشتبہ ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور اس کو واضح طور پر بیان کر دیتے تاکہ عذر ختم ہو جاتا، لیکن جب متعدد طریقے سے ان کی رہنمائی فرما دی کہ ابوبکر ہی خلافت کے لیے متعین ہیں اور لوگوں نے اس کو سمجھ لیا، جس سے مقصود حاصل ہو گیا۔ اسی لیے عمر رضی اللہ عنہ نے مہاجرین وانصار کے مجمع کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’تم میں کوئی ایسا نہیں کہ جس کی طرف ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرح گردنیں اٹھیں…‘‘ پھر علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: نصوص صحیحہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کی صحت اور ثبوت اور اللہ ورسول کے اس سے راضی ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔ آپ کی خلافت پر مسلمانوں کی بیعت منعقد ہوچکی ہے اور صحابہ نے آپ کو بحیثیت خلیفہ ان نصوص کی بنیاد پر منتخب کیا تھا جن میں اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے آپ کی تفضیل وارد ہے۔ لہٰذا آپ کی خلافت نص اور اجماع دونوں ہی سے ثابت ہے۔ نیز نصوص اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اللہ ورسول صلی اللہ علیہ وسلم اس سے راضی ہیں اور یہ حق ہے، اللہ نے اس کا حکم فرمایا اور یہ مقدر فرمایا کہ اہل ایمان آپ کو منتخب کریں گے اور یہ اسلوب بہ نسبت مجرد عہد وتعیین کے زیادہ موثر اور بلیغ ہے کیونکہ محض عہد وتعیین کی صورت میں اس کا ثبوت صرف عہد وتعیین کی بنا پر ہوتا لیکن جب بغیر عہد وتعیین کے مسلمانوں نے آپ کو منتخب
Flag Counter