Maktaba Wahhabi

86 - 512
بن اریقط کو راستہ کی رہنمائی کے لیے اجرت پر رکھا جو مشرک تھا، اور یہ دونوں اونٹنیاں اس کے حوالے کر دیں تاکہ وقت مقررہ تک ان کی دیکھ بھال کرے۔[1] صحیح بخاری میں ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے جو روایت ہجرت سے متعلق وارد ہے اس میں اہم تفاصیل آئی ہیں۔ اس روایت میں یوں آیا ہے: ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے: ہم دوپہر کی گرمی میں گھر کے اندر بیٹھے ہوئے تھے، اتنے میں ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کسی نے کہا: او دیکھو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سر مبارک ڈھانکے ہوئے تشریف لا رہے ہیں۔ یہ وقت آپ کی آمد کا نہ تھا۔ آپ نے پہنچ کر ابوبکر سے کہا: جو لوگ یہاں ہیں ان کو ذرا یہاں سے دور کریں۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یہ آپ ہی کے گھر والے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے یہاں سے نکل جانے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: مجھے بھی آپ کی رفاقت چاہیے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ضرور۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے دو اونٹنیاں حاضر کیں۔ عرض کیا: ان میں سے ایک آپ کے لیے ہے، آپ لے لیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بشرط قیمت۔ ام المومنین رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ہم نے آپ دونوں کے لیے اچھے طریقے سے سامان سفر تیار کیا اور توشہ تیار کر کے ایک تھیلے میں رکھا، اسماء نے اپنی کمر بند پھاڑ کر تھیلے کو باندھ دیا، اسی وجہ سے ان کا نام ’’ذات النطاقین‘‘ پڑ گیا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ غار ثور میں پناہ گزیں ہوئے اور تین راتیں وہاں چھپے رہے۔ عبداللہ بن ابوبکر جو انتہائی ذہین اور فہم و فراست کے مالک نوجوان تھے، غار میں جا کر آپ لوگوں کے ساتھ رات گذارتے اورآخری شب میں وہاں سے مکہ آجاتے گویا کہ آپ نے مکہ ہی میں لوگوں کے ساتھ رات گذاری ہے۔ دن بھر مکہ میں آپ دونوں سے متعلق جو سازشیں ہوتیں ان کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیتے اور جب رات کی تاریکی چھا جاتی تو غار میں پہنچ کر تمام خبریں پہنچا دیتے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے غلام عامر بن فہیرہ کچھ رات گئے بکریاں لے کر وہاں سے گذرتے اور تازہ تازہ دودھ نکال کر آپ دونوں کو پیش کرتے اور صبح سے قبل آخری شب کی تاریکی میں وہاں سے کوچ کر جاتے، تینوں رات یہی کیفیت رہی۔ بنو عبد بن عدی کی شاخ بنو دیل کے ایک شخص کو جو راستے کا ماہر تھا، اجرت پر راستہ دکھانے کے لیے طے کیا، یہ شخص آل عاص بن وائل سہمی کا پکا حلیف تھا اور کفار قریش کے دین پر قائم تھا، جب اس کے سلسلہ میں اچھی طرح اطمینان ہو گیا تو اپنی دونوں اونٹنیاں اس کے حوالے کیں اور تین
Flag Counter