ایسے لوگوں پر کلی اعتماد کرنے اور قائدانہ اعمال ان کے سپرد کرنے کی وجہ سے بسا اوقات امت کو خطرناک مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے لیکن ان لوگوں کے سلسلہ میں احتیاط اختیار کرنے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ ان کے دین میں ان کو متہم قرار دیں اور ان پر سرے سے اعتماد ہی نہ کیا جائے۔ اس طرح کے لوگوں کے ساتھ تعامل کے سلسلہ میں صدیقی سیاست کے یہ نقوش ہیں۔[1] طلیحہ پکا مسلمان ہو گیا اور جب عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ مقرر ہوئے تو آپ کی خدمت میں بیعت کے لیے حاضر ہوا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا کہ ’’تم عکاشہ بن محصن اور ثابت بن اقرم( رضی اللہ عنہما ) کے قاتل ہو۔ واللہ میں تمہیں کبھی پسند نہیں کر سکتا۔‘‘ اس نے عرض کیا: امیرالمومنین آپ ایسے دو شخصوں کے بارے میں متہم نہ قرار دیں جنہیں اللہ نے میرے ہاتھوں سے شرف ومنزلت عطا فرمائی۔ ان کے ہاتھوں کو رسوا نہیں کیا۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے طلیحہ سے بیعت لے لی، پھر اس سے فرمایا: اے فریب خوردہ! تمہاری کہانت میں سے کچھ باقی ہے؟ کہا: بھٹی کے ایک یا دو پھونک۔ پھر اپنی قوم کے پاس چلا گیا اور وہیں اقامت اختیار کر لی، پھر عراق کی طرف چلا گیا۔[2] اس کا اسلام صحیح تھا اور اس سلسلہ میں اس کو مطعون نہ کیا جا سکا۔ اپنی کوتاہیوں کا اعتراف اور معذرت پیش کرتے ہوئے کہا: نَدِمْتُ علی ما کان من قَتْلِ ثابت وعُکَّاشۃ الغُنْمِیِّ ثم ابن مَعْبَدِ ’’عکاشہ غنمی اور ثابت پھر ابن معبد کے قتل پر میں نادم ہوں۔‘‘ واعظم من ہاتین عندی مصیبۃً رجوعی عن الاسلام فِعْلَ التعمُّدِ ’’ان دونوں واقعات سے بڑھ کر مصیبت میرے نزدیک میرا قصداً اسلام سے پھر جانا رہا۔‘‘ وترکی بلادی والحوادث جَمَّۃٌ طریدا وقِدْمًا کنت غَیْرَ مطرَّد ’’حادثات بے شمار ہیں، من جملہ ان حادثات کے میرا وطن چھوڑ کر جلا وطنی کی زندگی گذارنا ہے اور برابر میں جلا وطن ہی رہا۔‘‘ |
Book Name | سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | شمیم احمد خلییل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 512 |
Introduction |