باشی کی، جو جاہلیت واسلام میں عربوں کی عادت کے خلاف اور اسی طرح مسلمانوں کی عادات اور اسلامی شریعت کے حکم کے منافی ہے۔[1] عقاد کا یہ قول سچائی سے بالکل دور ہے۔ عربوں کے یہاں اسلام سے قبل بہت دفعہ ایسا ہوتا تھاکہ جنگوں اور دشمنوں پر فتح یابی کے بعد قیدی خواتین سے شادیاں کرتے تھے اور انہیں اس پر فخر ہوتا تھا، اسی لیے اس طرح کی قیدی خواتین کی اولاد کی کثرت ان کے اندر پائی جاتی تھی۔ حاتم طائی کہتا ہے: وما أنْکحونا طائِعِین بناتِہِم ولکن خطبناہا باسیافنا قَسْرا ’’ان لوگوں نے اپنی بچیوں کی برضا و رغبت ہم سے شادی نہیں کی لیکن ہم نے جبراً تلواروں کے ذریعہ سے انہیں پیغام دیا۔‘‘ وکاین تری فینا من ابن سَبِیَّۃٍ اذا لقی الأبطال یطعنُہُم شَزْرا ’’تم ہمارے اندر کتنے ایسے قیدی خواتین کے بچوں کو دیکھو گے کہ جب جنگ میں بہادر ٹکراتے ہیں تو یہ انہیں نیزوں سے غضبناک ہو کر مارتے ہیں۔‘‘ ویأخذُ رایات الطِّعان بکفِّہ فیوردُہا بیصا ویصدرہا حُمْرا[2] ’’اپنی ہتھیلیوں میں نیزوں کا پرچم اٹھاتے ہیں، اسے سفید چمکتا ہوا لے کے جاتے ہیں اور دشمن کے خون سے سرخ کر کے لاتے ہیں۔‘‘ شرعی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو خالد رضی اللہ عنہ نے ایک مباح کام کیا اور اس کے لیے مشروع طریقہ اختیار کیا اور یہ فعل تو اس ذات سے ثابت ہے جو خالد رضی اللہ عنہ سے افضل تھے (یعنی پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم )۔ اگر خالد رضی اللہ عنہ پر یہ اعتراض ہے کہ انہوں نے جنگ کے دوران میں یا اس کے فوراً بعد شادی کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ مریسیع کے فوراً بعد جویریہ بنت حارث رضی اللہ عنہا سے شادی کی تھی اور یہ اپنی قوم کے لیے بڑی با برکت ثابت ہوئیں کہ اس شادی کی وجہ سے ان کے خاندان کے سو آدمی آزاد کر دیے گئے کیونکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سسرالی رشتے میں آگئے اور اس شادی کے با برکت اثرات میں سے یہ ہوا کہ ان کے والد حارث بن ضرار مسلمان ہو گئے۔[3] اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ خیبر کے فوراً بعد صفیہ بنت حی بن اخطب سے شادی کی اور خیبر ہی میں یا لوٹتے ہوئے راستے میں شب زفاف منائی۔[4] اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس سلسلہ میں اسوہ اور نمونہ موجود |
Book Name | سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | شمیم احمد خلییل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 512 |
Introduction |