Maktaba Wahhabi

268 - 512
یہاں تک کہ ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کی خلافت میں اسلامی افواج شام کی طرف آگے بڑھیں۔[1] پھر تمام رومیوں کو تعجب ہوا اور انہوں نے کہا: یہ کیسے لوگ ہیں، ان کا نبی وفات پا ہے پھر بھی یہ ہمارے ملک پر حملہ آور ہو رہے ہیں؟[2] اسی طرح شمال میں واقع عرب قبائل اسلامی سلطنت کی قوت سے خوفزدہ اور مرعوب ہو گئے۔[3] جس وقت لشکر اسامہ مدینہ پہنچا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مہاجرین وانصار کو لے کر مدینہ سے نکل کر ان کا استقبال کیا، لا الٰہ الا اللہ کی صدائیں بلند ہو رہی تھیں۔ اہل مدینہ نے پورے جوش وخروش اور مسرت کے ساتھ ان کا استقبال کیا۔ اسامہ رضی اللہ عنہ مدینہ میں داخل ہوئے اور سیدھے مسجد نبوی کا رخ کیا اور اللہ تعالیٰ کے اس عظیم انعام پر سجدۂ شکر ادا کیا۔ اس غزوہ کا خود مسلمانوں کی زندگی اور پھر ان عربوں کی زندگی پر بڑا گہرا اثر ہوا، جو مسلمانوں پر حملہ آور ہونا چاہتے تھے اور اسی طرح ان رومیوں کی زندگی پر بھی اثر انداز ہوا، جن کا ملک مسلمانوں کے حدود پر پھیلا ہوا تھا۔[4] اس فوج نے اپنی شہرت کے ذریعہ سے وہ کام کر لیا جو اپنی قوت و تعداد کے اعتبار سے نہ کر سکی۔ مرتدین کو جو آگے بڑھے تھے روک دیا، جو اکٹھے ہوئے تھے ان کو منتشر کر دیا اور جو مسلمانوں پر ٹوٹ پڑنے والے تھے، انہوں نے مصالحت میں اپنی عافیت سمجھی اور اسلحہ اتارنے سے قبل ہی ہیبت نے اپنا اثر دکھا دیا۔[5] یقینا اس فوج کی اپنی مہم پر روانگی مسلمانوں کے لیے بہت بڑی نعمت ثابت ہوئی۔ شمال میں ارتداد تمام محاذوں میں کمزور ترین ہو گیا، اور شاید اس کا اثر یہ ہوا کہ مسلمانوں کا فتوحات کے وقت اس محاذ کو توڑنا عراق میں دشمن کے محاذ کو توڑنے کی بہ نسبت زیادہ آسان ثابت ہوا۔[6] ان سب سے یہ بات موکد ہو جاتی ہے کہ مشکلات و شدائد کا حل تلاش کرنے والے ماہرین میں ابوبکر رضی اللہ عنہ سب سے زیادہ ثاقب نظر اور عمیق فہم کے مالک تھے۔ 
Flag Counter