کر دی۔ کلاعی کے بیان کے مطابق جس کا خلاصہ یہ ہے کہ: آپ نے کندہ کے ایک نوجوان کو غلطی سے زکوٰۃ میں سے ایک عیب دار اونٹنی دے دی لیکن جب اس شخص نے اس اونٹنی کو بدلنا چاہا تو آپ راضی نہ ہوئے اس نے اپنے ایک سردار حارثہ بن سراقہ سے اس سلسلہ میں تعاون چاہا، حارثہ نے جب زیاد رضی اللہ عنہ سے اونٹنی بدلنے کا مطالبہ کیا تو زیاد رضی اللہ عنہ اپنے مؤقف پر مصر رہے، حارثہ کو غصہ آیا، اس نے زبردستی اونٹنی کھول دی، جس کی وجہ سے زیاد رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں اور حارثہ کے ساتھیوں کے درمیان فتنہ رونما ہو گیا اور جنگ جاری ہو گئی اور بالآخر حارثہ کو شکست ہوئی، کندہ کے چاروں بادشاہ قتل کر دیے گئے اور سراقہ کی جماعت کی ایک بڑی تعداد کو زیاد رضی اللہ عنہ نے قید کر لیا اور مدینہ روانہ کر دیا۔ قیدیوں نے اشعث بن قیس سے مدد طلب کی، اس نے عصبیت وحمیت میں آکر بڑی جماعت اکٹھی کی اور مسلمانوں کا محاصرہ کر لیا۔[1] ادھر زیاد رضی اللہ عنہ نے صورت حال سے نمٹنے کے لیے مہاجر وعکرمہ رضی اللہ عنہما کو پیغام بھیجا کہ وہ جلد از جلد مدد کے لیے پہنچ جائیں۔ وہ دونوں اس وقت مآرب میں تھے، یہ خبر سن کر مہاجر رضی اللہ عنہ نے عکرمہ رضی اللہ عنہ کو فوج کے ساتھ چھوڑا اور خود تیز رفتار شہسواروں کو لے کر زیاد رضی اللہ عنہ کی مدد کے لیے پہنچ گئے اور محاصرہ کو ختم کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ کندہ کے لوگ بھاگ کر ’’نجیر‘‘ نامی اپنے ایک قلعہ میں محصور ہو گئے۔ اس قلعہ میں صرف تین راستے تھے، ایک راستہ پر زیاد رضی اللہ عنہ اتر گئے اور دوسرے پر مہاجر رضی اللہ عنہ نے نزول فرمایا اور تیسرا راستہ کندہ ہی کے تصرف میں رہا، یہاں تک کہ عکرمہ رضی اللہ عنہ پہنچے اور اس راستے پر قابض ہو گئے اور اس طرح چہار جانب سے قلعہ کا محاصرہ کر لیا اور پھر مہاجر رضی اللہ عنہ نے میدانی اور پہاڑی علاقہ میں کندہ کے بکھرے ہوئے قبائل کی طرف فوجی دستے روانہ کیے تاکہ انہیں اسلام کی دعوت دیں اور جو انکار کریں ان سے قتال کریں۔ اس طرح صرف قلعہ میں محصور افراد ہی باقی رہے۔[2] زیاد اور مہاجر رضی اللہ عنہما کی فوج پانچ ہزار سے زیادہ تھی، جن میں مہاجرین، انصار اور دیگر قبائل کے لوگ شامل تھے۔ انہوں نے قلعہ پر گرفت سخت کر دی، لوگوں نے بھوک سے زچ ہو کر اپنے سرداروں سے شکایت کی اور مرنے کو ترجیح دی، ان کے سرداروں نے اشعث بن قیس سے مطالبہ کیا کہ وہ مسلمانوں سے امان کا مطالبہ کرے اور مسلمانوں کے فیصلہ پر اترنے کے لیے تیار ہو جائے۔[3] جب ان سرداروں کی طرف سے اشعث کو مسلمانوں کے ساتھ مصالحت کی بات چیت کرنے کا اختیار سونپ دیا گیا تو کامیاب نہ ہو سکا کیونکہ بکثرت روایات یہ بتلاتی ہیں کہ اس نے تمام قلعہ والوں کے لیے امان کا مطالبہ نہ کیا، روایات کے مطابق اس نے بہت تھوڑے لوگوں کے لیے امان کا مطالبہ کیا، جن کی تعداد سات اور دس کے درمیان تھی اور شرط یہ تھی کہ قلعہ کا دروازہ کھول دیا جائے۔ |
Book Name | سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | شمیم احمد خلییل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 512 |
Introduction |