ج:… مہاجر بن ابی امیہ رضی اللہ عنہ کا لشکر حضرموت اور کندہ کے ارتداد کا قلع قمع کرنے کے لیے: گیارہ فوجی دستوں میں سب سے آخر میں مدینہ سے نکلنے والا دستہ مہاجر بن ابی امیہ رضی اللہ عنہ کا لشکر تھا۔ آپ کے ساتھ مہاجرین و انصار کی جماعت تھی۔ جب آپ مکہ سے گذرے تو والی مکہ عتاب بن اسید رضی اللہ عنہ کے بھائی خالد بن اسید رضی اللہ عنہ آپ کے ساتھ شامل ہو گئے اور جب آپ کا گذر طائف سے ہوا تو عبدالرحمن بن ابی العاص رضی اللہ عنہ اپنے ساتھیوں کو لے کر آپ کے ساتھ ہو لیے اور جب آپ کی ملاقات نجران کے علاقہ میں جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ سے ہوئی تو ان کو بھی اپنے ساتھ شامل کر لیا اور عکاشہ بن ثور رضی اللہ عنہ کو اپنے ساتھ لیا، انہوں نے تہامہ کے کچھ لوگوں کو جمع کر رکھا تھا پھر آپ کی جماعت میں فروہ بن مسیک المرادی بھی داخل ہو گئے جو مذحج کے مضافات میں تھے اور آپ کا گذر بنو حارث بن کعب کے پاس سے نجران میں ہوا، وہاں آپ کو مسروق عکی رضی اللہ عنہ ملے ان کو بھی اپنے ساتھ لے لیا۔[1] نجران میں مہاجر رضی اللہ عنہ نے اپنی فوج کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ فوج کا ایک حصہ نجران وصنعاء کے مابین اسود عنسی کی بکھری ہوئی جماعت کا خاتمہ کرنے پر مامور ہوا، جس کی قیادت خود مہاجر رضی اللہ عنہ نے سنبھالی اور دوسرے حصہ کی قیادت اپنے بھائی عبداللہ بن ابی امیہ رضی اللہ عنہ کو سونپی اور اس کی ذمہ داری تہامۂ یمن کو باقی مرتدین سے صاف کرنا تھا۔[2] جب صنعاء میں مہاجر رضی اللہ عنہ کو استقرار حاصل ہو گیا تو آپ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو خط کے ذریعہ سے اپنی تمام کارروائیوں سے مطلع کیا اور جواب کے انتظار میں لگ گئے اور اسی وقت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ اور یمن کے دیگر عمال نے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دَور سے چلے آرہے تھے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو خطوط ارسال کیے اور مدینہ واپس آنے کی اجازت طلب کی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھ دیگر عمال کو اختیار دیا کہ چاہیں تو یمن میں باقی رہیں اور چاہیں تو مدینہ واپس آ جائیں لیکن اپنی جگہ کسی کو مقرر کر کے آئیں۔ اختیار ملنے کے بعد تمام ہی لوگ مدینہ واپس ہو گئے۔[3] اور مہاجر رضی اللہ عنہ کو حکم ملا کہ عکرمہ سے جا ملو پھر دونوں مل کر حضرموت پہنچو اور زیاد بن لبید کا ساتھ دو، اور ان کو ان کے عہدہ پر باقی رکھتے ہوئے حکم فرمایا کہ تمہارے ساتھ مل کر جو لوگ مکہ اور یمن کے درمیان جہاد کرتے رہے ہیں انہیں لوٹنے کی اجازت دے دو مگر یہ کہ بذات خود جہاد میں شرکت کو ترجیح دیں۔[4] زیاد بن لبید انصاری رضی اللہ عنہ حضرموت میں کندہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے والی مقرر ہوئے تھے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان کو اس عہدہ پر باقی رکھا۔ زیاد رضی اللہ عنہ سخت گیر تھے، جس کی وجہ سے حارثہ بن سراقہ نے بغاوت |
Book Name | سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | شمیم احمد خلییل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 512 |
Introduction |