ساتھ[1] مہرہ کی طرف روانہ ہوئے اور آپ کے ساتھ عمان کے قبائل بھی تھے۔ آپ جب مہرہ میں داخل ہوئے تو دیکھا مہرہ دو سرداروں کے درمیان منقسم ہے۔ ایک کا نام ’’شخریت‘‘ تھا یہ ساحلی علاقہ پر قابض تھا اور عدد اور سازو سامان کے اعتبار سے دوسرے کی بہ نسبت کمزور تھا اور دوسرا ’’مصبح‘‘ تھا جو بالائی علاقہ پر قابض تھا اور عدد اور سازوسامان میں پہلے سے زیادہ قوی تھا۔ ان دونوں کو عکرمہ رضی اللہ عنہ نے اسلام کی طرف دعوت دی۔ شخریت نے دعوت قبول کر لی اور دوسرے کو اپنی تعداد و قوت پر غرور سوار ہوا تو شخریت کو لے کر عکرمہ رضی اللہ عنہ نے اس سے مقابلہ کیا، اس کو شکست فاش ہوئی اور اپنے بہت سے ساتھیوں کے ساتھ مارا گیا۔ عکرمہ رضی اللہ عنہ نے وہاں اقامت پذیر ہو کر ان کے جملہ امور کی ترتیب کی، وہ سب ایمان لائے، اسلام کی بیعت کی اور وہاں امن واستقرار پیدا ہو گیا۔[2] اسی اثناء میں عکرمہ رضی اللہ عنہ کو ابوبکر رضی اللہ عنہ کا خط موصول ہوا، اس میں انہیں حکم دیا گیا تھا کہ تم مہاجر بن ابی امیہ رضی اللہ عنہ سے جا ملو جو صنعاء سے آرہے ہیں اور پھر دونوں مل کر کندہ کا رخ کرو۔ یہ خط پا کر عکرمہ رضی اللہ عنہ مہرہ سے نکلے اور ’’ابین‘‘ میں قیام پذیر ہو کر مہاجر بن ابی امیہ رضی اللہ عنہ کا انتظار کرنے لگے۔ ’’ابین‘‘ میں اقامت کے دوران میں آپ نے ’’نخع‘‘ اور ’’حمیر‘‘ کو اکٹھا کیا اور انہیں اسلام پر ثابت قدم رکھا۔[3] ’’ابین‘‘ میں عکرمہ رضی اللہ عنہ کی اقامت سے اسود عنسی کی باقی ماندہ جماعت پر گہرا اثر پڑا جس کی قیادت قیس بن مکشوح اور عمرو بن معدیکرب کر رہے تھے۔ صنعاء سے بھاگنے کے بعد قیس صنعاء کے مابین چکر کاٹتا رہا اور عمرو بن معدیکرب اسود عنسی کی لحج میں موجود جماعت میں جا شامل ہوا تھا لیکن جب عکرمہ رضی اللہ عنہ ’’ابین‘‘ پہنچے تو دونوں یعنی قیس اور عمرو بن معدیکرب آپ سے قتال کے لیے اکٹھے ہو گئے لیکن جلد ہی دونوں میں اختلاف ہوا اور ایک دوسرے سے جدا ہو گئے اور جب مہاجر بن ابی امیہ رضی اللہ عنہ وہاں پہنچے تو عمرو بن معدی کرب نے اپنے آپ کو ان کے حوالے کرنے میں جلدی کی پھر قیس بھی اپنے آپ کو حوالے کرنے کے لیے پہنچ گیا۔ مہاجر بن ابی امیہ رضی اللہ عنہ نے ان دونوں کو قید کر کے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس روانہ کر دیا۔ دونوں سے ابوبکر رضی اللہ عنہ نے باز پرس کی، عتاب فرمایا۔ دونوں نے ندامت کا اظہار کرتے ہوئے معذرت کی آپ نے دونوں کو رہا کر دیا۔ دونوں نے توبہ کی اور اپنی اصلاح کر کے واپس ہوئے۔[4] اس طرح عکرمہ رضی اللہ عنہ کا مشرق کی طرف سے آنا ’’لحج‘‘ میں موجود مرتدین کی جماعتوں کے خاتمہ میں اہم کردار ادا کیا۔ خواہ مقابلہ کے ذریعہ سے یا اس فوج کے خوف کے ذریعہ سے، اور پھر انہیں شمال کی طرف سے مہاجر بن ابی امیہ رضی اللہ عنہ کی قیادت میں دوسری فوج کا مقابلہ کرنا پڑا۔[5] |
Book Name | سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | شمیم احمد خلییل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 512 |
Introduction |