Maktaba Wahhabi

471 - 512
افراد زنجیر میں بندھے ہوتے سب گر پڑتے، اس مرحلے پر مسلمانوں نے ان کے بہت سے افراد کو قتل کیا، جن کی تعداد تقریباً ایک لاکھ بیس ہزار تک پہنچتی ہے۔ ان میں سے کچھ فحل اور کچھ دمشق کی طرف بھاگ گئے۔[1] ان کے مقابلہ میں یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما ڈٹ گئے اور خوب زور دار قتال کیا، ان کے والد ان کے پاس سے گذرے، فرمایا: میرے لخت جگر! اللہ سے تقویٰ اور صبر لازم پکڑو۔ آج اس وادی میں جو مسلمان بھی ہے اس پر لازم ہے کہ وہ قتال کرے۔ تو تم اور تم جیسے لوگ جو مسلمانوں کے امیر ہیں ان پر تو بدرجہ اولیٰ لازم ہے۔ میرے لخت جگر! اللہ سے ڈرو اور تمہارے ساتھیوں میں سے کوئی دوسرا تم سے بڑھ کر جنگ میں اجر و صبر کی رغبت رکھنے والا اور اعدائے اسلام کے خلاف جری نہ ہو۔ یزید رضی اللہ عنہ نے کہا: ان شاء اللہ ایسا ہی کروں گا، پھر ڈٹ کر زور دار قتال کیا۔ اس وقت یزید رضی اللہ عنہ قلب کی طرف تھے۔[2] سعید بن مسیب رحمہ اللہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ یرموک کے دن خاموشی طاری ہوئی تو ہم نے ایک زور دار آواز سنی جو پورے معسکر میں سنی جا رہی تھی: اللہ کی مدد قریب آجا، مسلمانو! ڈٹ جاؤ، ڈٹ جاؤ۔ ہم نے دیکھا تو وہ آواز دینے والے ابوسفیان رضی اللہ عنہ تھے جو اپنے بیٹے یزید رضی اللہ عنہ کے پرچم تلے تھے۔[3] مسلمانوں نے مغرب وعشاء کی نماز مؤخر کی، یہاں تک کہ فتح مکمل ہو گئی۔[4] خالد رضی اللہ عنہ نے روم کے سپہ سالار اعظم ہرقل کے بھائی تذارق کے خیمہ میں یہ رات گذاری۔[5] وہ بھاگنے والوں کے ساتھ بھاگ کھڑا ہوا، شہسوار خالد رضی اللہ عنہ کے خیمہ کے اردگرد چکر لگاتے رہے، جو رومی ادھر آتا اس کو قتل کرتے، صبح تک یہی کیفیت رہی۔ تذارق بھی قتل کیا گیا، اس دن اس کے تیس شامیانے اور تیس دیباج کے سائبان تھے اور مزید برآں قالین اور ریشمی پردے اور جوڑے تھے جب صبح ہوئی تو وہاں جو کچھ تھا مسلمانوں نے مال غنیمت میں حاصل کیا۔[6] اس معرکہ میں مسلمانوں کے شہداء کی تعداد تین ہزار تھی، جن میں اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، مسلمان سربراہان اور زعماء شامل تھے۔ جام شہادت نوش کرنے والوں میں عکرمہ بن ابی جہل اور ان کے بیٹے عمرو، سلمہ بن ہشام، عمرو بن سعید، ابان بن سعید وغیرہم رضی اللہ عنہم اجمعین تھے۔[7] اور رومی مقتولین کی تعداد تقریباً ایک لاکھ بیس ہزار تھی۔ ان میں اسّی (۸۰) ہزار زنجیروں میں قید اور چالیس ہزار بغیر زنجیروں کے سب کے سب اس وادی میں موت کے گھاٹ اتر گئے۔[8]
Flag Counter