Maktaba Wahhabi

320 - 512
اس نے کہا: نہیں۔ پھر لوٹ گیا اور قتال کرنے لگا، کچھ دیر کے بعد پھر آیا اور پوچھا: کیا جبریل آئے؟ اس نے کہا: نہیں۔ پھر تیسری مرتبہ آیا اور کہا: کیا جبریل آئے؟ تو طلیحہ نے کہا: ہاں پوچھا: جبریل نے کیا کہا ہے؟ اس نے جواب دیا: جبریل نے کہا ہے تمہیں اس کی چکی کی طرح چکی حاصل ہو گی اور ایسا واقعہ پیش ہوگا جسے بھولو گے نہیں۔ یہ سن کر عیینہ نے کہا: میرا خیال ہے اللہ نے جان لیا ہے کہ تمہارے ساتھ ایسا واقعہ رونما ہوگا جس کو تم بھولو گے نہیں۔ اس نے بنو فزارہ کو آواز دی: جنگ بند کرو اور چلو لوٹ چلو۔ اس طرح لوگوں نے طلیحہ کا ساتھ چھوڑ دیا۔ جب مسلمان طلیحہ کے پاس پہنچے دیکھا تو وہ پہلے سے گھوڑا تیار رکھے تھا، اس پر سوار ہو گیا اور اپنی بیوی ’’نوار‘‘ کو اونٹ پر سوار کیا اور اس کو لے کر شام کی طرف بھاگ کھڑا ہوا پھر اس کی جمعیت منتشر ہو گئی اور اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھیوں میں سے ایک بڑی تعداد کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔[1] جب ابوبکر رضی اللہ عنہ کو طلیحہ کی شکست اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی فتح کی خبر پہنچی تو آپ نے ان کو خط تحریر کرتے ہوئے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے تم پر جو انعام کیا ہے اس سے تمہاری خیر میں اضافہ ہو اور اپنے معاملہ میں اللہ سے تقویٰ اختیار کرو، اللہ متقیوں اور نیکوکار لوگوں کے ساتھ ہے۔ اپنے مؤقف پر ڈٹے رہو، نرم مت پڑنا اور ان مشرکین میں سے جو بھی ملے جس نے کسی مسلمان کو قتل کیا ہے اس کو عبرت ناک سزا دو۔‘‘ خالد رضی اللہ عنہ بزاخہ میں ایک ماہ تک ٹھہرے رہے اور اس کے چاروں طرف ان لوگوں کو تلاش کرتے جن کی ابوبکر رضی اللہ عنہ نے وصیت کی تھی اور ان سے مسلمانوں کا بدلہ لیتے جنہیں انہوں نے ارتداد کے وقت قتل کر دیا تھا۔ ایک ماہ تک آپ اس مہم میں لگے رہے، کسی کو آگ میں جھونک دیا، کسی کو پتھر سے کچل کر مارا اور کسی کو پہاڑ کی چوٹیوں سے دھکیل کر ختم کیا اور یہ سب اس لیے کیا گیا تاکہ مرتدین عرب کو اس سے عبرت حاصل ہو۔[2] بنو اسد اور بنو غطفان کا وفد ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں اور ان کے بارے میں آپ کا فیصلہ: جب اسد وغطفان کا وفد ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے صلح کا مطالبہ کیا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے
Flag Counter