Maktaba Wahhabi

319 - 512
عدی رضی اللہ عنہ ان کے ساتھ برابر لگے رہے یہاں تک کہ وہ نرم پڑ گئے اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہ فوج لے کر پہنچ گئے۔ آپ کے ساتھ جو انصار تھے ان کے ہراول دستہ پر ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ تھے۔ ان سے آگے ثابت بن اقرم اور عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہما کو دشمن کی نقل وحرکت کا پتہ چلانے کے لیے روانہ کیا، ان دونوں کو طلیحہ کا بھتیجا حبال مل گیا اس کو انہوں نے قتل کر دیا۔ طلیحہ کو اس کی خبر ملی، وہ اور اس کا بھائی سلمہ دونوں نکلے، ثابت اور عکاشہ رضی اللہ عنہما سے مقابلہ آرائی ہوئی، طلیحہ نے عکاشہ کو اور سلمہ نے ثابت کو قتل کر دیا۔ جب خالد بن ولید رضی اللہ عنہ پہنچے تو دونوں کو ڈھیر پایا۔ مسلمانوں پر یہ بہت شاق گذرا۔ یہاں سے خالد رضی اللہ عنہ بنو طے کی طرف مڑ گئے۔ وہاں عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے ملے اور ان سے عرض کیا: آپ مجھے تین دن کی مہلت دیں۔ انہوں نے مجھ سے مہلت مانگی ہے تاکہ ان کے جو لوگ طلیحہ سے جا ملے ہیں انہیں یہ واپس بلا لیں، انہیں اس بات کا خطرہ ہے کہ اگر یہ لوگ آپ کا ساتھ دیں تو کہیں طلیحہ ان کے لوگوں کو قتل نہ کر دے اور یہ چیز آپ کو ان کے جہنم رسید ہونے سے زیادہ محبوب ہے۔ جب تین دن گذر گئے تو عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ ان میں سے پانچ سو مجاہدین کے ساتھ حاضر ہوئے، جنہوں نے حق کی طرف رجوع کر لیا تھا اور یہ لشکر خالد میں شامل ہو گئے۔ پھر خالد رضی اللہ عنہ نے بنو جدیلہ کا رخ کیا۔ عدی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: آپ ہمیں کچھ روز کی مہلت دیں میں انہیں لے کر حاضر ہوتا ہوں۔ امید ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں بھی بچا لے گا جس طرح غوث کو بچایا ہے۔[1] عدی رضی اللہ عنہ ان کے پاس پہنچے اور برابر ان کے ساتھ لگے رہے، انہوں نے آپ کی بات مان لی اور مسلمان ہو گئے اور ان میں سے ایک ہزار سواروں نے مسلمانوں کی فوج میں شمولیت اختیار کر لی۔ اس طرح عدی رضی اللہ عنہ اپنی قوم کے لیے بہترین سپوت اور عظیم برکت والے ثابت ہوئے۔[2] معرکہ بزاخہ اور بنو اسد کی شورش کا خاتمہ: خالد بن ولید رضی اللہ عنہ بنو عدی سے فارغ ہو کر نکلے اور ’’اَجا‘‘’’سلمی‘‘ میں نزول فرمایا اور اپنی فوج کو ترتیب دیا اور طلیحہ اسدی سے مقام بزاخہ میں نبرد آزما ہوئے۔ بہت سے قبائل یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ کون غالب آتا ہے۔ طلیحہ اسدی اپنی قوم اور اپنے تمام معاونین کے ساتھ حاضر ہوا، اس کے ساتھ عیینہ بن حصن، بنو فزارہ کے سات سو افراد کو لے کر پہنچا، صف بندی ہوئی۔ طلیحہ چادر میں لپٹ کر پیشین گوئیاں کرتا رہا اور اپنی زعم کے مطابق وحی کا انتظار کرتا رہا اور عیینہ مسلمانوں سے جنگ میں مشغول ہو گیا اور جب قتال سے تنگ دل ہو گیا تو طلیحہ کے پاس آیا وہ اپنی چادر میں لپٹا ہوا تھا۔ پوچھا: کیا جبریل آئے؟
Flag Counter