Maktaba Wahhabi

297 - 512
ارشاد الٰہی ہے: وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ۚ وَإِنَّ اللَّـهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ (العنکبوت: ۶۹) ’’اور جو لوگ میری راہ میں مشقتیں برداشت کرتے ہیں ہم انہیں اپنی راہ ضرور دکھا دیں گے۔ یقینا اللہ تعالیٰ نیکو کاروں کا ساتھی ہے۔‘‘ مرتدین سے اسلام یا پھر قتال ہی قابل قبول ہے۔ کیونکہ عقیدہ کے سلسلہ میں کوئی مصالحت نہیں۔ بیت المال کے حق خمس کو محفوظ رکھ کر باقی مال غنیمت فوج کے درمیان تقسیم کر دینا۔ درآمدہ مسائل میں جلد بازی نہ کی جائے تاکہ ان مسائل کا حل بغیر غور و فکر کے صادر نہ ہو۔ اس بات کی مکمل احتیاط کی جائے کہ کوئی اجنبی ان کے درمیان شامل نہ ہونے پائے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ وہ دشمن کا جاسوس ہو۔ لشکر کے ساتھ نرمی اور رفق کا معاملہ کیا جائے اور سفر اور قیام کے دوران برابر ان کی خبر گیری کی جائے تاکہ ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں۔ امراء ہمیشہ لشکر کو حسن صحبت کی وصیت کرتے رہیں۔[1] بحث وتحقیق کے بعد قائدین کی تقرری کے سلسلہ میں درج ذیل نکات میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کی منصوبہ بندی کی تلخیص ہمارے سامنے آتی ہے: الف:اس منصوبہ میں اس بات کا اہتمام کیا گیا کہ لشکروں کے درمیان آپس میں ربط اور تعاون برابر قائم رہے اگرچہ ان کے مقامات اور جہات مختلف تھے لیکن سب ایک ہی سلسلہ کی کڑیاں تھیں۔ ان کا آپس میں ملنا اور جدا ہونا ایک ہی مقصد کے پیش نظر تھا اور خلیفہ کے مدینہ میں ہوتے ہوئے قتال کے جملہ امور کا کنٹرول پاور اس کے ہاتھ میں تھا۔ ب: صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے دارالخلافہ مدینہ کی حفاظت کے لیے فوج کا ایک حصہ اپنے پاس رکھا اور اسی طرح امور حکومت میں رائے ومشورہ کے لیے کبار صحابہ کی ایک جماعت اپنے پاس رکھی۔ ج: ابوبکر رضی اللہ عنہ کو معلوم تھا کہ ارتداد سے متاثرہ علاقوں میں اسلامی قوت موجود ہے، آپ کو اس کی فکر لاحق ہوئی کہ کہیں یہ مسلمان مشرکین کے غیظ و غضب کا نشانہ نہ بنیں، اس لیے قائدین کو حکم فرمایا کہ ان میں سے جو قوت وطاقت کے مالک ہیں ان کو اپنے ساتھ شامل کر لیں اور ان علاقوں کی حفاظت کی خاطر کچھ افراد کو وہاں مقرر کر دیں۔
Flag Counter