عقیدہ کا رابطہ جس قدر اجاگر ہوا کہیں اور نہیں ہوا۔ امت اسلامیہ ہی نے ایک طویل عرصہ تک امت کے صحیح معنی ثابت کیے۔ یہ امت زمین، قومیت، رنگ اور زمینی مصالح پر قائم نہیں ہوتی بلکہ عقیدہ کی اساس پر قائم ہوتی ہے جو عقیدہ عربی، حبشی، رومی اور فارسی کو ایک دوسرے سے جوڑ دیتا ہے اور فاتحین اور مفتوحین کے مابین کامل دینی اخوت کی اساس پر تعلقات استوار کرتا ہے۔ اگر اس امت نے ایک طویل عرصہ تک امت کے یہ معنی ثابت کر کے دکھائے ہیں تو اسلام کا ابتدائی دور انتہائی بہترین دور ہے، جس میں اسلام کے تمام معانی پائے گئے جس میں امت کا مفہوم بھی شامل ہے، اس کی کوئی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔[1] ۳: یہ ایک اخلاقی معاشرہ تھا جو دین کے اوامر و توجیہات سے مستفاد واضح اخلاقی اصول پر قائم تھا اور یہ اصول صرف مرد و خواتین کے تعلقات کو شامل نہیں اگرچہ یہ اس معاشرہ کی واضح ترین خصوصیت تھی بلکہ یہ معاشرہ عریانیت، اختلاط اور حیا سوز قول وفعل اور اشارہ نیز زنا سے خالی تھا۔ اِلایہ کہ شاذ و نادر، جس سے کوئی بھی معاشرہ مطلقاً بچ نہیں سکتا۔ لیکن اخلاقی اصول مرد وخواتین کے تعلقات سے کہیں زیادہ وسیع تر تھے۔ یہ اصول سیاست، اقتصاد، اجتماع، فکر اور تعبیر کو بھی شامل تھے۔ حکومت وسلطنت، اسلامی اخلاقیات پر قائم تھی، اقتصادی تعلقات؛ خرید و فروخت، تبادل اور استغلال مال بھی اسلامی اخلاقیات پر قائم تھے۔ غمزولمز، عیب جوئی، چغل خوری، قذف اور بہتان طرازی کا گذر نہیں تھا۔[2] ۴: یہ ایک سنجیدہ معاشرہ تھا۔ اہم ترین امور میں مشغول تھا۔ ردی اور ناکارہ امور میں نہیں الجھتا تھا۔ لیکن متانت وسنجیدگی کے لیے یہ ضروری نہیں کہ ترش روئی اور سختی اختیار کی جائے بلکہ یہ ایک ایسی روح ہے جو لوگوں کے اندر ہمت کو بیدار کرتی ہے اور نشاط وعمل اور حرکت پر ابھارتی ہے۔ اسی طرح لوگوں کی دلچسپیاں ظاہری امور کی دلچسپیوں سے بالاتر تھیں۔ اس معاشرہ میں ان بیکار اور سست معاشروں کے اوصاف نہیں تھے جو گھروں اور گلی کوچوں میں حیرانی وپریشانی کا شکار رہتے ہیں اور شدید بیکاری کی وجہ سے وقت گذاری کے وسائل تلاش کرتے ہیں۔[3] ۵: یہ معاشرہ ہمہ وقت عمل کے لیے تیار تھا۔ ہر جانب آپ فوجی روح واضح طور سے محسوس کریں گے، صرف میدان قتال میں نہیں۔ اگرچہ قتال فی سبیل اللہ نے اس معاشرہ کی زندگی کا بڑا حصہ لے رکھا تھا لیکن تمام شعبوں میں یہ روح کار فرما تھی۔ ہر ایک ہمہ وقت عمل کے لیے تیار رہتا تھا، جب بھی اس سے مطالبہ ہو ڈٹ جائے۔ اس لیے عسکری یا مدنی تربیت دینے اور تیار کرنے کی ضرورت نہ تھی بلکہ وہ خود بخود تیار تھے۔عقیدہ کی جو خوراک ان کو دی گئی تھی اس کا یہ اثر تھا کہ ان کے اندر ہر میدان میں نشاط پیدا ہو چکا تھا۔[4] |
Book Name | سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | شمیم احمد خلییل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 512 |
Introduction |