واقعی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موت واقع ہو چکی ہے۔[1] امام قرطبی فرماتے ہیں: یہ آیت کریمہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی شجاعت اور جرأت و دلیری کی بہت بڑی دلیل ہے کیونکہ شجاعت اور جرأت مصائب و آلام کے وقت دل کے ثابت قدم رہنے کا نام ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے بڑھ کر کون سی مصیبت ہو سکتی ہے؟ اس سے آپ کی شجاعت اور علم ظاہر ہوتا ہے۔ لوگ کہہ رہے تھے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موت واقع نہیں ہوئی۔ عمر رضی اللہ عنہ انھی قائلین میں سے تھے۔ عثمان رضی اللہ عنہ گونگے ہو گئے۔ علی رضی اللہ عنہ روپوش ہو گئے۔ حالات انتہائی مضطرب ہو گئے۔ لیکن ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس موقع پر پہنچ کر حالات کو سنبھالا اور حقیقت سے پردہ اٹھایا۔[2] ان چند کلمات اور قرآن سے استدلال و استشہاد سے لوگ جو فرط غم کی وجہ سے حیران وششدر تھے ہوش میں آئے، ان کی حیرانی و پریشانی ختم ہوئی اور فہم صحیح کی طرف رجوع ہوئے کہ اللہ ہی حي وقیوم ہے، اس کو موت نہیں آنے والی ہے، وہی تنہا عبادت کا مستحق ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی اسلام باقی رہے گا۔[3] جیسا کہ ایک روایت میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کا یہ قول منقول ہے: یقینا اللہ کا دین قائم ہے، اللہ کا کلمہ مکمل ہے، اللہ تعالیٰ کی کتاب ہمارے درمیان ہے، وہ نور و شفا ہے، اسی کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت بخشی، اس میں اللہ کی حلال وحرام کردہ اشیاء کا ذکر ہے۔ اللہ کی قسم ہمیں اس کی پرو ا نہیں کہ ہم پر کون حملہ آور ہو رہا ہے، کیونکہ ہماری تلواریں ابھی کھینچی ہوئی ہیں، ابھی ہم نے انہیں رکھا نہیں ہے۔ جو ہماری مخالفت پر کمر بستہ ہوگا اس سے ہم اسی طرح جہاد کریں گے جس طرح ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ جہاد کر رہے تھے۔ لہٰذا کوئی ہمارے خلاف جرأت نہ کرے ورنہ اس کا وبال اس کے سر ہوگا۔[4] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موت عظیم مصیبت اور شدید ابتلاء وآزمائش تھی، اس دوران میں اور اس کے بعد قائد ملت کی حیثیت سے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی شخصیت نمایاں ہوئی جس کی کوئی نظیر ومثیل نہیں۔[5] آپ کے دل میں یقین پھوٹ پڑا اور حقائق اس میں راسخ ہو گئے۔ آپ نے عبودیت، نبوت اور موت کی حقیقت کو اچھی طرح جانا۔ اس جانکاہ موقع پر آپ کی حکمت نمایاں ہوئی، لوگوں کو توحید کی طرف لے آئے، ان کے دلوں میں ابھی تک توحید تروتازہ تھی۔ جیسے ہی انہوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تذکیر سنی حق کی طرف لوٹ آئے۔[6] ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: اللہ کی قسم گویا ایسا لگ رہا تھا کہ آپ کی تلاوت سے قبل لوگوں کو پتہ ہی |
Book Name | سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | شمیم احمد خلییل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 512 |
Introduction |