یہاں پر ہیکل صاحب نے صحابی جلیل خالد رضی اللہ عنہ کو ایکلیز، ہیکٹر، اغا ممنون جیسے بت پرست قائدین جنگ کی طرح تصور کر رکھا ہے، جو اس وقت تک قتال نہیں کر تے جب تک ان کو شہرت نہ ملے، انگلیوں سے ان کی طرف اشارہ نہ کیا جائے، بوسوں کی بارش کے ذریعہ سے ان کی آؤ بھگت نہ کی جائے کیونکہ یہ لوگ قیادت و وجاہت کے حصول اور نام ونمود کے لیے قتال کرتے تھے۔ یا ہیکل صاحب نے خالد رضی اللہ عنہ کو اصنام عرب میں شمار کر رکھا ہے جن کے تقرب کے لیے جانوروں کے خون بہائے جاتے ہیں، یا نیل کی دیوی تصور کر رکھا ہے، جس کے بارے میں قدیم مصریوں کا عقیدہ تھا کہ جب تک اس کے اندر مصر کی حسینہ کو بھینٹ کے طور پر نہ ڈال دیا جاتا اس میں طغیانی نہیں آتی تھی۔ حاشا وکلا، اوّل و آخر خالد رضی اللہ عنہ اس طرح کی روح اور نفسیات سے پاک تھے۔ آپ مرد مومن اور موحد تھے۔ آپ اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے قتال کرتے تھے۔ مخلوق میں سے کسی سے جزاء وشکر کے متمنی نہ تھے۔ اسی طرح جنرل اکرم کا زعم بھی باطل ہے چنانچہ یہ صاحب حروب ارتداد میں خالد رضی اللہ عنہ کی شادی سے متعلق قصص وحکایات کی بنیاد پر اٹھنے والے اعتراضات اور ملامت کی تعلیل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ان کی جسمانی قوت ولیاقت کی وجہ سے جزیرہ نمائے عرب کی حسیناؤں کے سلسلہ میں انہیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔[1] جنرل صاحب کی اس بات سے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خالد رضی اللہ عنہ رقص وسرود کی محفلوں کے رسیا ہو گئے تھے یا ملکہ حسن وجمال پر فریفتہ تھے حالانکہ آپ کو جہاد فی سبیل اللہ کے علاوہ کوئی چیز راس نہ آتی تھی لیکن ان باطل توجیہات کا کیا کہا جائے جو حالات و ظروف اور مبادی وشواہد سے دور ہو کر امور کی تفسیر کرتی ہیں۔[2] خالد رضی اللہ عنہ اللہ کے دین کی خاطر لڑتے تھے اور اسی ہی سے اجر و ثواب کی امید رکھتے تھے، معرکہ میں بذات خود حصہ لیتے ۔ آپ کے سلسلہ میں بتایا گیا ہے کہ آپ بلی کی بردباری اور شیر کی اچھل کود سے متصف تھے۔[3] کسی موقع پر بھی آپ اپنے لشکر سے پیچھے نہیں رہتے تھے۔ بلکہ لوگ آپ کو ہر معرکہ میں اپنے سامنے پاتے چنانچہ معرکہ بزاخہ میں آپ قتال کے جوہر دکھاتے اور اپنے گھوڑے کو آگے بڑھاتے جاتے تھے۔ لوگ آپ سے کہتے: اللہ، اللہ! آپ ہمارے امیر ہیں، آپ کے لیے مناسب نہیں کہ اس قدر پیش قدمی کریں۔ آپ جواب دیتے ہیں: واللہ میں جانتا ہوں جو آپ لوگ کہہ رہے ہیں لیکن یہ مجھ سے نہیں ہو سکتا کہ مجھے مسلمانوں کی شکست کا خطرہ ہو اور میں صبر کروں۔[4] اور معرکہ یمامہ میں جب گھمسان کی جنگ شروع ہوئی، بنو حنیفہ کے اندر مقتولین کی کثرت کے باوجود سختی آئی، آپ میدان میں مبارزت کے لیے اتر پڑے اور صف کے سامنے مبارزت کی دعوت دی اور مسلمانوں کو ان |
Book Name | سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | شمیم احمد خلییل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 512 |
Introduction |