Maktaba Wahhabi

369 - 512
ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم سچ کہتے ہو۔ خالد کے عذر سے متعلق خالد کے خط کی بہ نسبت تمہارا کلام زیادہ مناسب ہے۔[1] خالد رضی اللہ عنہ کے خط کے بعض نکات جن کے ذریعہ سے آپ نے اپنے مؤقف کا دفاع کیا: آپ نے فتح وانتصار اور استقرار و اطمینان کے بعد ہی شادی کی۔ آپ نے ایسے شخص سے سسرالی رشتہ قائم کیا جو اپنی قوم کے زعماء و اشراف میں سے تھا۔ آپ کو اس رشتہ میں ادنیٰ سی مشقت بھی نہیں اٹھانا پڑی۔ اس شادی میں دینی یا دنیاوی کوئی قباحت نہیں تھی۔ مسلم مقتولین پر حزن و غم کی وجہ سے شادی سے باز رہنا کوئی مفید عمل نہیں کیونکہ حزن و غم نہ زندہ کو باقی رکھ سکتا ہے اور نہ ہی مردہ کو لوٹا سکتا ہے۔ آپ جہاد پر کسی چیز کو مقدم نہیں رکھتے تھے۔ اس سلسلہ میں ابتلاء و آزمائش سے دوچار ہوئے، موت اور ان کے درمیان کوئی مانع نہ رہا۔ مجاعہ سے مصالحت کرتے ہوئے مسلمانوں کے لیے خیر ثابت کرنے میں کوئی کسر باقی نہ رکھی اگرچہ مجاعہ نے آپ کو اپنی قوم کی صحیح صورت حال سے مطلع نہ کیا لیکن آپ انسان تھے، غیب نہیں جانتے تھے۔ بہرحال انجام کار مسلمانوں کے ہی حق میں رہا۔ کیونکہ وہ بنو حنیفہ کی زمین کے مالک بنے اور بنو حنیفہ کے بقیہ لوگ بغیر کسی مزاحمت کے دائرۂ اسلام میں واپس آگئے۔ اس صورتِ حال میں مجاعہ کی بیٹی سے آپ کا نکاح کرنا ایک طبعی امر تھا۔ اس سلسلہ میں خالد رضی اللہ عنہ پر کوئی حرف ملامت نہیں اور یہ کہنا صحیح نہیں کہ خالد رضی اللہ عنہ کو مجاعہ کی قومی غیرت بھا گئی، اسی لیے اس سے رشتہ قائم کرنا پسند کیا اور یہ چاہا کہ دینی تعلق کو خاندانی اور نسبی تعلق سے قوت پہنچائیں،[2] جیسا کہ عقاد کا کہنا ہے۔ اس لیے کہ خالد رضی اللہ عنہ کبھی بھی دینی تعلقات پر دوسرے تعلقات کو مقدم نہیں کر سکتے تھے اور نہ لوگوں کے ساتھ تعامل میں دینی رابطہ کے ساتھ دوسرے رابطے جمع کر سکتے تھے۔[3] خالد رضی اللہ عنہ کی طرف سے اعتذار کے سلسلہ میں محمد حسین ہیکل کا اسلوب ناقابل قبول ہے کیونکہ یہ اسلامی احکام کے منافی ہے۔ ہیکل کا کہنا ہے: ’’جشن فتح میں (جس کا قیام خالد کے حق میں ضروری تھا) بنت مجاعہ کی کیا حیثیت۔ یہ اس عبقری فاتح کے قدموں پر نچھاور ہونے والی قربانیوں میں کچھ اضافہ نہیں کر سکتی جس نے سر زمین یمامہ کو خون سے سیراب کر دیا، امید کہ اس سے اس کی نجاست پاک ہو جائے۔‘‘[4]
Flag Counter