Maktaba Wahhabi

77 - 512
سے ولید بن مغیرہ یا عاص بن وائل کا گذر ہوا، آپ نے اس سے کہا: ذرا اس بے وقوف کو دیکھو کیا کر رہا ہے؟ اس نے کہا: یہ تم نے خود اپنے ساتھ کیا ہے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ یہ کہتے ہوئے گذر گئے: اے میرے رب تو کتنا بڑا بردبار ہے، اے میرے رب تو کتنا بڑا بردبارہے، اے میرے رب تو کتنا بڑا بردبار ہے۔[1] دروس و وعبر: اس واقعہ میں بہت سے دروس وعبر ہیں، ان میں سے چند یہ ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل قوم میں آپ کا انتہائی اونچا مقام تھا، لوگوں کی نگاہ میں بڑی عزت تھی، چنانچہ ابن الدغنہ یہ شہادت دینے پر مجبور ہوا کہ اے ابوبکر! آپ جیسا عظیم المرتبت انسان یہاں سے نہیں جا سکتا اور نہ اسے کوئی یہاں سے نکال سکتا ہے، آپ تو مجبوروں کی مدد کرتے ہیں، رشتہ داروں کا خیال رکھتے ہیں، دوسروں کا بوجھ یعنی قرض وغیرہ اپنے سر لے لیتے ہیں، مہمان نوازی اور ضیافت کرتے ہیں اور مصائب وآلام میں دوسروں سے تعاون کرتے ہیں۔ اس سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے محض اللہ و ر سول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں اسلام قبول کیا تھا، آپ کے پیش نظر جاہ وحشمت کا حصول نہیں تھا، آپ کا مقصود صرف اللہ کی رضا کا حصول تھا، جس کی وجہ سے ابتلاء وآزمائش کا سامنا کرنا پڑا، آپ نے اللہ کی عبادت کی خاطر اہل وعیال، خاندان ووطن کو خیر باد کہنا چاہا، کیونکہ اپنے وطن میں آپ کو آزادی کے ساتھ عبادت الٰہی سے روک دیا گیا۔[2] دعوتی زندگی میں آپ کا زاد راہ قرآن کریم تھا، اس لیے اس کے حفظ و فہم اور فقہ وعمل کا آپ نے بھرپور اہتمام کیا۔ قرآن کے ساتھ اس اہتمام کی وجہ سے اپنی دعوت کی تبلیغ میں مہارت وجمال، اسلوب میں حسن، فکر میں گہرائی اور موضوع کو پیش کرنے میں عقلی تسلسل، سامعین کے احوال کی رعایت، برہان ودلیل میں قوت آپ کو حاصل تھی۔[3] قرآن کی تلاوت کے وقت آپ بے حد متاثر ہوتے اور روتے۔ اس سے آپ کے یقین کی پختگی اور اللہ تعالیٰ نیز اس کی آیات کی تلاوت کردہ معانی کے ساتھ پوری دلجمعی کا پتہ چلتا ہے۔ شدید حزن یا گہری خوشی کے ساتھ رونے سے قوت تاثیر پیدا ہوتی ہے۔ حقیقی مومن ایک طرف صراط مستقیم کی طرف اللہ کی دی ہوئی ہدایت سے خوش ہوتا ہے تو دوسری طرف صراط مستقیم سے معمولی انحراف کا خوف بھی اس کو دامن گیر ہوتا ہے۔ اور جب
Flag Counter