Maktaba Wahhabi

90 - 512
قریش نے مکہ میں یہ عام اعلان کر رکھا تھا کہ جو بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو زندہ یا مردہ لائے گا اس کو سو اونٹ انعام میں دیے جائیں گے۔ یہ خبر مکہ کے قرب وجوار میں آباد قبائل عرب میں بھی پھیل چکی تھی۔ سراقہ بن مالک بن جعشم کو یہ انعام حاصل کرنے کا شوق دامن گیر ہوا، اس نے یہ انعام حاصل کرنے کی پوری کوشش کی، لیکن اللہ رب العزت کی قدرت پر کون غالب آسکتا ہے، اللہ کا کچھ ایسا کرنا ہوا کہ نکلے تو تھے گرفتار کرنے کے لیے لیکن آپ کی طرف سے دفاع کرنے والا بن کر لوٹے۔[1] جب مسلمانان مدینہ کو مکہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کوچ کرنے کی خبر ملی توبے حد خوش ہوئے اور آپ کے انتظار میں روزانہ صبح مدینہ سے باہر نکلتے اور دوپہر تک انتظار کرتے، جب گرمی کی شدت بڑھ جاتی تو واپس ہو جاتے، ایک دن جب انتظار کر کے اپنے گھروں کو واپس ہو گئے تو ایک یہودی اپنے مکان پر کسی کام سے چڑھا۔ اس کی نگاہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے رفقاء پر پڑی جو نہایت سفید اور صاف وشفاف لباس میں ملبوس تھے۔ یہودی اپنے اوپر قابو نہ رکھ سکا اور بلند آواز سے پکارا: عرب کے لوگو! یہ تمہارا نصیب آ پہنچا ہے جس کا تمہیں انتظار تھا۔ یہ آواز سن کر مسلمان اسلحہ لے کر استقبال میں نکل پڑے اور حرہ کے پیچھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ دائیں جانب مڑے اور قبا میں بنو عوف کے پاس نزول فرمایا۔ یہ دوشنبہ[2] کا دن اور ربیع الاوّل کا مہینہ تھا۔[3] جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر دھوپ پڑنے لگی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی چادر سے سایہ کیا، تب آنے والوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچانا، ورنہ بہت سے لوگ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ہی رسول اللہ سمجھ رہے تھے۔[4] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پہنچنے کا دن خوشی ومسرت کا دن تھا، ایسا دن مدینہ پر نہیں آیا تھا۔ لوگوں نے عید کی طرح اچھے اورخوبصورت کپڑے زیب تن کیے، اور حقیقت میں یہ عید ہی کا دن تھا کیونکہ آج کے دن اسلام مکہ کے تنگ دائرہ سے نکل کر با برکت سرزمین مدینہ کے وسیع میدان میں داخل ہوا اور پھر وہاں سے پوری روئے زمین میں پھیلا۔ اللہ تعالیٰ نے اہل مدینہ کو جس شرف ومنزلت سے نوازا اور جو فضیلت ان کو بخشی اس کا انہیں بخوبی احساس تھا۔ ان کا شہر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مہاجرین صحابہ رضی اللہ عنہم کے لیے پناہ گاہ قرار پایا، اور پھر نصرت اسلام کا مرکز بنا۔ اسی طرح تمام خصائص وعناصر کے ساتھ اسلامی نظام کا مرکز قرار پایا، اسی لیے مدینہ والے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد پر خوشی ومسرت کے ساتھ ((اللہ اکبر جاء رسول اللہ، اللہ اکبر جاء
Flag Counter