لشکر کی ضرورت کے مطابق سازو سامان اور توشہ وچارہ تیار کرنا: ابوبکر رضی اللہ عنہ اونٹ، گھوڑے اور اسلحہ خریدتے اور اسے جہاد کے لیے وقف کر دیتے،[1] اور اس کے ساتھ دشمن سے جو سازو سامان اور اسلحہ قبضے میں آتا وہ بھی اسی مقصد کے لیے ہوتا۔[2] اور جس وقت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو مرتدین سے جنگ کا مکلف کیا تو ان کو اس بات کی نصیحت فرمائی کہ جب دشمن کی سرزمین میں پہنچیں تو اس وقت تک دشمن کی طرف نہ بڑھیں جب تک کہ سازوسامان اور توشہ کا انتظام اور تیاری مکمل نہ کر لیں۔[3] ابوبکر رضی اللہ عنہ کے قائدین جب دشمن سے مصالحت کرتے تو ان سے یہ شرط لگاتے کہ جو مسلمان ان کے پاس سے گذریں گے ان کے لیے حلال کھانے پینے کا انتظام کریں گے۔[4] اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے شام کی مہم پر روانہ ہونے والے اسلامی لشکر کو نصیحت کرتے ہوئے یہ اجازت دی تھی کہ وہ صرف کھانے کی غرض سے دشمن کے اونٹ اور بکری ذبح کر سکتے ہیں ورنہ نہیں۔[5] میدان جنگ میں فوج کی ترتیب: ابوبکر رضی اللہ عنہ کے قائدین اپنے جنگی معرکوں میں صف بندی کے نظام کو قائم کرتے تھے اور میدان قتال میں قائد کی صواب دید اور وقت کی ضرورت کے مطابق صفوں کی تعداد میں کمی وزیادتی ہوتی رہتی تھی [6] لیکن معرکہ یرموک میں خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے کردوس کا نظام متعارف کروایا۔ کردوس کے نظام میں فوجیوں کا ایک مجموعہ صفوں کے درمیان کھڑا ہوتا ہے۔ یہ صفیں دوسری سے جدا نہیں ہوتیں، ہر دو کے درمیان اتنا فاصلہ ہوتا ہے کہ آسانی سے نقل و حرکت کر سکتے ہیں۔ کردوس کا نظام اختیار کرتے ہوئے خالد رضی اللہ عنہ نے لشکر سے فرمایا: تمہارا دشمن تعداد میں زیادہ ہے اور سرکشی پر اتر آیا ہے اور کردوس کے نظام سے بڑھ کر کوئی نظام نہیں ہے جس میں بظاہر فوج زیادہ نظر آئے۔[7] چنانچہ قلب پر کردوسوں کو رکھا اور ان کے ساتھ ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کو مقرر کیا اور میمنہ پر کردوسوں کو رکھا اور ان کے ساتھ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو مقرر کیا اور ان کے ساتھ شرحبیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ بھی تھے اور میسرہ پر کردوسوں کو رکھا اور ان پر یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کو مقرر فرمایا۔ اس طرح آپ نے چھتیس (۳۶) سے چالیس (۴۰) کردوس مقرر کیے اور فوج کو میدان میں اس طرح منظم کیا، جس تنظیم سے عرب واقف نہ تھے اور انتظامی امور کی ادارت وذمہ داری قائدین کے درمیان تقسیم کر دی۔[8] مگر واقعہ یرموک کے بعد صفوں کا نظام اسلامی جنگی نظام میں معمول بہ رہا۔[9] |
Book Name | سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | شمیم احمد خلییل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 512 |
Introduction |