Maktaba Wahhabi

486 - 512
اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کو شام روانہ کرتے وقت وصیت فرمائی: جب چلنا تو اپنے نفس پر اور اپنے ساتھیوں پر سختی نہ کرنا اور تنگی میں نہ ڈالنا۔[1] اور جب لشکر کو چلنے میں مشقت محسوس ہوئی تو ایک شخص نے یزید رضی اللہ عنہ کو ابوبکر رضی اللہ عنہ کی وصیت کہ ’’لوگوں کے ساتھ نرمی کرنا‘‘ یاد دلائی اور اس کے التزام کا مطالبہ کیا۔[2] اسی طرح ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو فلسطین روانہ کرتے وقت وصیت کی: ’’اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایک باپ کی طرح رہنا، چلنے میں ان کے ساتھ نرمی برتنا کیونکہ ان میں کمزور لوگ بھی ہیں۔‘‘[3] ابوبکر رضی اللہ عنہ کے قائدین نے لشکر کے ساتھ نرمی کی وصیت کو نافذ کیا، انہوں نے اپنا یہ معمول بنا رکھا تھا کہ جب بھی دشمن سے قتال کے لیے نکلتے تو اپنے ساتھ راہ نما رکھتے جو ایسے راستوں سے لے کر جاتے جو آسان ترین ہوں اور پانی وچارہ اس راستہ میں میسر ہو تاکہ دشمن تک بآسانی اپنی قوت کھوئے بغیر پہنچ سکیں۔[4] ہر دستے اور گروہ کا اپنا خاص شعار ہو جس سے ایک دوسرے کو پکاریں: قتال روم پر روانہ ہونے والے لشکر اسامہ کا شعار ’’یا منصور امت‘‘ تھا۔[5] اور حروب ارتداد میں جب خالد رضی اللہ عنہ نے یمامہ میں مسیلمہ کذاب پر چڑھائی کی تو ان کا شعار ’’یا محمداہ یا محمداہ‘‘ تھا[6] اور فتوحات عراق میں تنوخ کا شعار ’’یا آل عباد اللہ‘‘ تھا [7] معرکہ یرموک میں ہر قائد اور ہر قبیلہ کا شعار الگ الگ تھا جس سے ان کی شناخت ہوتی تھی اور قتال کے وقت اس شعار کو بلند کرتے تھے جو تعارف کا ذریعہ تھا۔ ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کا شعار ’’امت امت‘‘ ،خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کا شعار ’’یا حزب اللہ‘‘ ، قبیلہ عبس کا شعار ’’یا لعبس‘‘ ، یمن کے مخلوط لوگوں کا شعار ’’یا انصار اللہ‘‘ ، حمیر کا شعار ’’الفتح‘‘ ، دارم وسکاسک کا شعار ’’الصبر الصبر‘‘ ، بنو مراد کا شعار ’’یا نصر اللہ انزل‘‘ تھا۔ یہ معرکہ یرموک میں نمایاں شعار تھے۔[8] لشکر کی روانگی کے وقت اس کا باقاعدہ جائزہ لینا: حروب ارتداد میں آپ قائدین کو یہ نصیحت فرماتے تھے کہ اپنے ساتھیوں کو جلد بازی اور فساد سے روکیں، ان میں زائد لوگوں کو داخل نہ ہونے دیں، یہاں تک کہ ان کو اچھی طرح پہچان لیں کہ کہیں وہ دشمن کے جاسوس ہی نہ ہوں اور ان کی وجہ سے مسلمانوں کو نقصان پہنچے۔[9]
Flag Counter