Maktaba Wahhabi

481 - 512
صورت میں تم کو نقصان اور رسوائی لاحق ہو گی۔ خبردار! تم اپنے کسی عمل کی وجہ سے احسان نہ جتلاؤ، حقیقت میں اللہ ہی احسان کرنے والا ہے اور وہی بدلہ دینے والا ہے۔‘‘[1] امانت کی ادائیگی: ابوبکر رضی اللہ عنہ نے امراء و فوج کے لیے جو تعلیمات جاری کیں وہ اس سلسلہ میں بالکل واضح تھیں کہ وہ لوگ جو مال غنیمت حاصل کریں ان پر فرض ہے کہ وہ اس میں امانت داری کا ثبوت دیں۔ کوئی بھی اس میں ذرا برابر خیانت نہ کرے بلکہ پورے کا پورا جمع کریں اور پھر اس معرکہ میں شریک تمام مجاہدین کے مابین تقسیم کیا جائے جنہوں نے ایک ہو کر دشمن کا مقابلہ کیا ہے۔[2] اور بطور مثال یہاں ابوبکر رضی اللہ عنہ کی وہ وصیت بھی پیش کی جا سکتی ہے جو یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کو مال غنیمت میں خیانت سے منع کرتے ہوئے کی تھی۔[3] یہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بعض تعلیمات قائدین اور لشکر پر حقوق اللہ سے متعلق ہیں۔ قائد کے حقوق: ابوبکر رضی اللہ عنہ نے لشکر و رعایا پر قائدین وامراء کے حقوق بیان کیے۔ ان کی اطاعت کو لازم پکڑنا، ان کے حکم کی بجا آوری میں جلدی کرنا، مال غنیمت کی تقسیم وغیرہ میں ہرگز اختلاف نہ کرنا۔ اس کی اطاعت کا التزام: جس وقت ابوبکر رضی اللہ عنہ مسند خلافت پر جلوہ افروز ہوئے تو خطاب خلافت میں سب سے پہلی چیز جس سے مسلمانوں کو آگاہ فرمایا وہ یہ ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر عمل پیرا ہوں گے اور آپ نے انہیں اطاعت کی طرف توجہ دلائی۔ فرمایا: جان لو، جو اعمال تم اللہ کے لیے بھیجتے ہو وہ تمہاری اطاعت شعاری ہے۔[4] اور اپنے قائدین پر ایک دوسرے کی اطاعت کو لازم قرار دیا چنانچہ مثنیٰ بن حارثہ شیبانی رضی اللہ عنہ کو لکھا: میں نے تمہاری طرف سرزمین عراق میں خالد بن ولید کو بھیجا کیا ہے، تم اپنی قوم کے لوگوں کے ساتھ ان کا استقبال کرو اور ان کا بھرپور ساتھ دو اور تعاون کرو، ان کے کسی حکم کو نہ ٹالنا اور ان کی کسی رائے کی مخالفت نہ کرنا کیونکہ یہ ان لوگوں میں سے ہیں جن کی صفت اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں بیان کرتے ہوئے فرمایا: مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّـهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ۖتَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّـهِ وَرِضْوَانًا ۖ سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ [5] (الفتح: ۲۹)
Flag Counter